خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر استعمار کی نظر اچانک نہیں پڑی بلکہ قلب مملکت اسلامیہونے کی وجہ سے سینکڑوں سال قبل سے استعمار اپنی پیہم صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کیلئے طرح طرح کی سازش اور ترکیبیں بنا رہا تھا ، کبھی منہ کی کھائی تو کبھی دو چار حربے کامیاب ہوئے ، بیسویں صدی کے آغاز سے چند یہودی ’’ وطن یہود ‘‘کی اپنی دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سامنے آئے ، حالات نے بھی ساتھ دیا برطانیہ نے دست دوستی بڑھایا،’’ اسلام دشمنی‘‘ کی مشترک فکر کے ساتھ یہودی و عیسائی ہر طرح کے مکر و فریب سے آراستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ فلسطین کو غصب کرنے اور تحریک اسرائیل کو آگے بڑھانے میں درج ذیل افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے:
ہربرٹ ( Herbert)
یہ شخص پکا یہودی تھا ، برطانیہ نے مقبوضہ فلسطین پراپنی سپاہ کا افسر اعلیٰ ’’Commissioner‘‘بنا کر بھیجا تھا ۔
یہی وہ شخص ہے جس نے برطانیہ پردباؤ ڈالا تھا کہ اس کی (برطانیہ) نگرانی میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کی جائے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود وباش دی جائے ۔
اسی نے کہا تھا کہ یہودی مملکت کے وجود میں آجانے کے بعدمصر و نہر سوئز کے قریب برطانیہ کے مفاد کی حفاظت ہو سکے گی ۔
اسی نے اُس خفیہ مسودے کو آشکار کیا تھا جسے وزیر خارجۂ برطانیہ بالفور (Balfour)نے تہیہ کیا تھا جس میں فلسطین میں یہودیوں کے بسائے جانے کا منصوبہ طے پایا تھا۔
جنرل ایلن بی
آزادی خواہ عربوں کی حمایت میں امریکہ ، انگلینڈ ، اٹلی اور فرانس نے اپنی اپنی جو فوج بھیجی تھی جنرل ایلن بی اس کا سربراہ تھا اس نے جنرل ایلن بی (Allenby نے اپنی حکمت عملی سے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کیا ۔
۱۷؍دسمبر ۱۹۱۷ ء کو یہ شخص فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہوا اور فخریہ کہا ’’میں آخری صلیبی ہوں ‘‘ اس جملہ کا مفہوم یہ تھا کہ بیت المقدس پر قبضہ کیلئے یورپی مسیحیوں نے ۱۰۹۶ ء میں صلیبی جنگوں کے سلسلے کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام اب ہواہے ۔(۱) اس جنرل نے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کے بعدبرطانیہ ایک خط بھیجا جس میں انقلابی عربوں کی خدمات کو سراہا ہے ، خط کا مضمون اس طرح تھا :
۲۸؍جنوری ۱۹۱۸ ء :آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ عثمانی حکومت سے جو جنگ لڑی جا رہی تھی وہ ہم نے جیت لی اس کامیابی کا سہرا عربوں پر ہے انہوں نے جی جان سے ہماری مدد کی ۔
جنرل ایلن بی کے اس اعتراف حمایت کے بعد بھی استعمار نے آزادی خواہ عربوں کو آزادی کے بجائے اس وقت سے یہودیوں کی اسارت واذیت کی آماجگاہ بنا دیا ۔
فلسطین پر فتح کے بعد جنرل ایلن بی نے اعلان کیا کہ فلسطین فوج کے کنٹرول میں ہے اس کا نظم و نسق آزادی خواہ عربوں کے بجائے فوج انگلستان انجام دیا کرے گی ۔
ممکن تھا کہ اس اعلان سے عربوں میں بے چینی و بے اطمینانی پیدا ہوں لہٰذا فوراً انگلینڈ و فرانس نے عوام کے ذہنوں کے شک و شبہ کو بر طرف کرنے کیلئے سربراہ فوج کی طرف سے یہ بیانیہ منتشرکیا ۔
انگلستان و فرانس کی مشرق وسطیٰ میں دخل اندازی صرف اس لئے تھی کہ عرب کی مجبور وبیکس قوم کو ترکوں کی غلامیسے رہا کرائیں تاکہ یہ آزادانہ اپنی حکومت تشکیل دے سکیں ۔ انگلستان و فرانس جیسی عادل حکومتانکی مدد سے قطعاً دریغ نہیں کرے گی ۔ آنے والے دنوں میں بھی انگلستان و فرانس کی عادل حکومت اسی طرح کی آزادی دلاتی رہے گی ۔ اس اعلان نے عربوں کے ذہنوں سے بچے کھچے شبہ کو بھی نکال دیا ۔
ڈاکٹر وائز مین
مانچسٹر یونیورسٹی میں کیمسٹ Chemist کا پروفیسر تھا عقیدے کے اعتبار سے کٹر یہودی تھا، اپنی علمیصلاحیت کی وجہ سے انگلینڈ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔
یہودی حکومت کے قیام کے لئے امریکہ فرانس اور انگلینڈ کے سربراہوں سے بار بار ملاقاتیں کیں ، اور یہودی مملکت کے لئے راستے ہموار کئے ۔
پہلی جنگ عظیم میں اس شخص نے انگریزوں سے کہا تھا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرنے کے بعد سر زمین فلسطین پر یہودیوں کا قومیوطن قائم کردیں تو اس جنگ میں یہودیوں کے سارے خزانےانکے قدموں تلے قربان کر دئے جائیں گے ۔آخر کار ۱۹۱۷ ء میں انگریزوں سے وعدہ لینے میں کامیاب ہوگیا ، لہٰذا انگریزوں نے وعدہ کرلیا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرلیتے ہیں تو وہ فلسطین کو ایک آزاد یہودی وطن بنا دیں گے ،لہٰذا جب کامیابی مل گئی تو انگریزوں نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے وہ جال بچھایا جس میں آج تک فلسطین الجھا ہوا ہے اسرائیل کی غصبی حکومت کا یہ شخص پہلا صدر تھا ۔
عربوں نے جس وقت انگلستان کی در پردہ یہود نوازی کو بھانپا توانمیں یہودیوں کے خلاف بغاوت و غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، ہر عربی ملک نے فلسطین بچاؤ تحریک میں حصہ لیا اور یہودیوں کا بائکاٹ کیا ، اس بائکاٹ نے ساٹھ فیصد یہودیوں کو بے روزگار بنا دیا ، اس موقع پر ڈاکٹر وائز مین نے یہودیوں کی پیغام دیا کہ تم لوگ اس وقت تاریخ کے نہایت سخت ترین دور سے گذر رہے ہو ، صبر وضبط کا مظاہرہ کرو ۔اس اعلان کے فوراً بعد شر پسند یہودیوں نے برطانیہ سے اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے اسلحوں کا مطالبہ کیا ، بوڑھی برطانیہ نے پانچ ہزار قبضے توپ وتفنگ اور بم فلسطین کے غاصب یہودیوں کو روانہ کیا جسے پانے کے بعد انہوں نے گھنی آبادیوں ، سبزی منڈیوں میں عربوں پر حملے کئے ، انڈوں کی ٹرے اور سبزیوں کی ٹوکروں میں بم رکھے جس کے پھٹنےکے بعد پہلی بار چوہتر (۷۴) فلسطینی جاں بحق اور ایک سو تیس (۱۳۰)زخمیہوئے ،اس دن سے آج تک بے گناہ عورتوں بچوں بیماروں ، مزدوروں اور طالب علموں کویہود خاک و خون میں آلودہ کر رہے ہیں ۔
بالفور (Balfour)
یہودی ملک کے قیام کیلئے سب سے پہلے اس شخص نے یوگنڈاکا انتخاب کیا تھا ، لیکن یہودیوں نے اس تجویز کو رد کردیا ۔
بالفور پکا یہودی تھا اور یہودی مملکت کو فلسطین میں فوری قائم کرنےکیلئے تحریری مسودہ بھی تیار کیا تھا جس کی عبارت کا مفہوم تھا :جیسا کہ دنیا کی چار بڑی حکومتیں اپنے کو یہودیوں کا طرفدار بتاتی ہیں ،انپر واضح ہونا چاہئے کہ ہمیں فلسطینیوں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے ہم خواہ حق پر ہوں یا باطل پر، ہمارے مفاد مقدم رکھنا پڑیں گےانبڑی حکومتوں کو ہماری آرزؤں ، تمناؤں کا خیال رکھنا چاہئے، ہم سات لاکھ فلسطین کےباشندوں پر ہر حال میں مقدم ہیں۔
ڈاکٹر ہرٹزل (Dr Theodore Hertzel)
ایک عام سا مقالہ نویس تھا رفتہ رفتہ اسی مقالہ نویسی سے لوگوں میں پہچانا جانے لگا ، کچھ دنوں بعد پیرس کے اخبار کا خبر نگار بنایا گیا لیکن اس کو شہرت تمام اس وقت حاصل ہوئی جب فرانس کے اسلحہ خانے کے دریفوس نامییہودی افسر پر الزام تھا کہ اس نے فرانس کے خفیہ اسرار جاپان کو منتقل کر دئے ہیں ، اس خبر کے عام ہوتے ہی فرانسیسیوں میں یہودیوں کے خلاف غم و غصہ بھڑک اٹھا اور انہیں غدار و خائن کے لفظ سے پکارا جانے لگا ، جہاں کہیں یہودی ہوتےانکو فرانسیسی حقارت ، نفرت ، اور ذلت کی نظر سے دیکھتے ۔
ملکی پیمانے پر اس حقارت کے باوجود یہودی خاموش نہیں بیٹھے بلکہ دس سال تک اس کوشش میں رہے کہ کسی صورت سے مقدمے کی دوبارہ اپیل کا موقع مل جائے ، آخر کار اس سلسلے میں یہودیوں کو کامیابی ملی اور اسناد جاسوسی کو پھر سے کھنگالا گیا اور آخر کار مجرم کو بے خطا ثابت کرا دیا ۔
اس پورے واقعہ کا پیرو یہی اخباری نمائندہ ڈاکٹر ہرٹزل تھا اس نے اپنے ایک یہودی بھائی کو نہیں بچایا تھا بلکہ یہودی برادری کو جس حقارت و نفرت سےفرانس میں دیکھا جا رہا تھا اس سے آزاد کرایا تھا ۔اس مقدمہ کی کامیابی نے ہرٹزل کو یہودیوں کا قائد و رہبر بنا دیا ۔
اسی ہرٹزل نے ترکی کے خلیفہ سلطان عبد الحمید سے کہا تھا کہ اگر وہ سر زمین فلسطین پر یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دے دیں تو یہودی ترکی کے تمام قرضوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہیں ، لیکن سلطان نے یہ کہتے ہوئے اس کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا کہ جس سر زمین کو ہمارے آباء و اجداد نے خون دیکر حاصل کیا ہے اس کو چنددرہموں کے بدلہ نہیں بیچا جا سکتا ہے۔ہرٹزل نے اپنی کتاب ’’مملکت یہود‘‘ میں یہودیوں کو پیغام دیا :
یہودیو! تم لوگ دنیا میں پراگندہ ہو اسی لئےانممالک کی اذیت و ذلت برداشت کررہے ہو اگر تم میں سے کوئی اپنے ملک کی اذیتوں کو برداشت نہیں کر سکتا ہے تو اسے کسی ایسی جگہ ہجرت کرکے پہنچناچاہئے جہاں وہ مستقل اپنا ایک ملک بنا سکے ۔اس شخص نے یہودیوں کے درمیان باہمیرابطہ مضبوط کر نے کےلئے ایک تنظیم بنائی ،تاکہ یہودیوں کی اقتصادی ،سیاسی ،سماجی اطلاع رکھی جا سکے ۔
ہرٹزل نے اپنی دوڑ دھوپ سے یہودی مملکت کے قیام کی راہیں ہموار اور مشکلیں برطرف کرنے کیلئے سالانہ کانفرنس کا انتظام بھی کیا تھا جس میں دنیا بھر کے اعلیٰ یہودی شریک ہوتے اور تسخیر کائنات کے منصوبے بناتے ۔
کانفرنس کی جو بنیاد ہرٹزل نے رکھی تھی آج تک یہودیوں میں جاری ہے۔
مآخذ: فلسطین خونبار تعارف اور جائزہ
بازدید : 528
سه شنبه 15 ارديبهشت 1399 زمان : 20:22