خیبر صہیون تحقیقای ویب گاہ: جس طرح کل علی کے گریہ کی آوازیں بلند تھیں آج بھی نخلستانوں سے بلک بلک کر علی کے رونے کی آواز سنی جا سکتی ہے جہاں علی جیسا یکتائے روزگار اپنے معبود کے سامنے فریاد کر رہا ہے ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار ….
آئیے اس مبارک مہینہ میں جہاں ہر طرف برکات کا نزول ہے کچھاناساسی اور بنیادی مسائل پر وقت نکال کر غور کرتے ہیں کہ علی کی تہنائی کا راز آخر کیا تھا ؟ قرآن آج کیوں تنہا ہے؟ علی
اور قرآنکا رشتہ کیا ہے؟ علی اور قرآن دونوں ہی آج اپنے ہی ماننے والوں کے درمیان مظلوم کیوں ہیں؟ ہم علی اور قرآن کی تنہائی و مظلومیت کو دور کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ہماری اجتماعی زندگی میں قرآنی اصولوں اور سیرت علوی کا کتنا عمل دخل ہے؟ کیا ہم خود کو اور اپنے معاشرہ کو قرآن اور علی کا پابند بنا سکتے ہیں؟ کہیں یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کے لئے علی نے کہا تھا ” وانہ سیاتی علیکم بعدی زمان … و لیس عند اھل ذالک الزمان سلعة ابور من کتاب …. فقد نبذ الکتاب حملتہ و تناساہ حفظتہ ….
یاد رکھو! میرے بعد وہ زمانہ آنے والا ہے …جب اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی …حاملان کتاب، کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافطان قرآن قرآن کو بھلا دیں گے (۱)
قرآن اور علی کو سمجھنے کے لئے اس ماہ مبارک سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے جس مہینہ میں ایک طرف تو قرآن نازل ہوا تو دوسری طرف محافظ قرآن کے خون سے محراب مسجد رنگین ہو گئی، کیا قرآن صامت کا اس مہینہ میں نزول
اور قرآنناطق کا اسی مہینہ میں عروجاندونوں کے غیر معمولی رابطہ کی طرف اشارہ نہیں ہے؟
کیا شبہائے قدر میں علی کا زخمیہونا اور انہیں ایام میں علی کا شہید ہو جانا محض اتفاق ہے؟ امام موسی صدر نے بڑے دلنشین انداز میں اس بات پر یوں روشنی ڈالی ہے ” کیا شہادت امام علی کا شب قدر کے ساتھ تقارن محض اتفاق ہے یا پھر علی ہی اس امت کی قدر ہے؟ کیا علی اس امت کی اندھیری راتوں کے لئے وہ نور نہ تھے کہ جس کی روشنی میں امت کی تقدیر لکھی جائے؟… کیا علی وجہ بقائے امت نہ تھے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ حق تو یہ ہے کہ علی اور اس امت کی تقدیر لکھے جانے کے درمیان ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے دونوں کے درمیان ایک اٹوٹ رابطہ ہے میں اپنےانبھائیوں سے جو اس شب میں اکھٹا ہوئے ہیں پوچھنا چاہتا ہوں بھائیو! یہ بتاؤ کہ قدر کیا ہے ؟ ….
اگر ہم غور کریں تو اس نتیجہ پر پہچیں گے کہ شب قدر کا روزہ سے گہرا تعلق ہے روزہ کا مطلب ہے تزکیہ نفس روزہ یعنی روز مرہ کی جکڑی ہوئی زندگی سے آزادی ،
… انسان روزے کے ذریعہ خود کو نئے سرے سے سنوارتا ہے اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے ”قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہا وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاہا ”۔بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے(٢)
اس آیت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ تزکیہ اور تہذیب نفس انسانی کی کامیابی کا راستہ ہے، ہم اس مبارک مہینہ میں روزہ کے ذریعہ اپنے آپ پر قابو پا سکتے ہیں اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں رقم کر سکتے ہیں اپنے آپ کو غلامیکی زنجیروں سے آزاد کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ علی اس امت کی تقدیر ہیں ہمارے اس دعوے کی دلیل انہیں مبارک راتوں میں علی کی دردناک شہادت ہے انہیں راتوں میں سجدے کی حالت میں علی کوشہید کر دیا گیا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو علی اور شب قدر سے جڑی ہوئی ہے اور ہمیں سکھاتی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم علی سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، اور یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اسرائیل پر فتح حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری باتیں ہماری فکریںانراتوں میں ایک تحریک کا سبب بن سکیں ، معروف مقولہ ہے کہ ہزار کلومیٹر کی مسافت کو طے کرنے کا آغاز پہلے قدم سے ہوتا ہے، اب ہمیں اس شب میں پہلا قدم اٹھانا ہے ہم نتائج سے ناامید نہیں ہیں اس لئے کہ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے کہ خدا بہت کریم ہے اگر ہم اس کی راہ میں ایک قدم بھی اٹھائیں گے تو وہ ہماری دس گنا زیادہ مدد کرے گا (۳) ”مَنْ جاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثالِہا ” جو نیک عمل انجام دے گا اسے نیکی کا صلہ دس برابر دیا جائے گا ” (٤)
اور پھر ” وَ لَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ ِانَّ اللَّہَ لَقَوِیّ عَزیز
الَّذینَ ِانْ مَکَّنَّاھمْ فِی الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّکاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَھوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلَّہِ عاقِبَةُ الْأُمُورِ
اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحبِ قوت بھی ہے اور صاحبِ عزت بھی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکوِۃ ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے ”(٥)
مذکورہ بالا جملے امام موسی صدر کی شبہائے قدر میں کی گئی چار دہائیوں پرانی تقریر سے ماخوذ تھے جس میں انہوں نے جو کچھ اپنی قوم سے کہا وہ کر دکھایا جو وعدہ کیا وہ پورا بھی کیا اور شب ہائے قدر میں اپنی دعاؤں اور سیرت علی سے درس لیتے ہوئےانکی امت نے حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیل کو جولان کی پہاڑیوں سے کھدیڑ ڈالا اور یہ ثابت کر دیا جس علی نے کل خیبر فتح کر کے یہودیوں کو بتایا تھا جہاں واقعی قرآنی تعلیمات ہوتی ہیں وہاں قلعہ خیبر دو انگلیوں پر نظر آتا ہے اسی طرح آج علی کے ماننے والوں نے علی کی سیرت اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حقیقی وارث قرآن علی ہی ہے سیرت علی ہی حققیت میں ترجمان قرآن ہے نہ علی کو قرآن سے الک کیا جا سکتا ہے نہ قرآن کو علی سے ۔
حوالے و حواشی :
١۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٤٧
٢۔شمس ١٠
٣۔ادیان در خدمت انسان ، جستار ہای دربارہ دین و مسائل جہان معاصر ،امام موسی صدر ٣٣٥
٤۔حج ٤١٤٠
٥۔ انعام ١٦٠
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن گزرگاہ تاریخ بنی نوع بشر پر جلتا ہوا وہ چراغ جو انسانی زندگی کے تمام پیچ و خم کو قابل دید بنا کر انسان کے ادنی یا اعلی ٰہونے میں مشعل راہ ہے ۔ علم و حکمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا وہ بحر ذخار کہ علم و دانش کے شناور اس کی گہرائی میں جتنا بھی اترتے چلے جائیںانکا دامن معرفت کے بیش بہا گوہروں سے اتنا ہی بھرتا چلا جائے ۔
لیکن افسوس! تہجر کے یخ زدہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لئے جو کتاب نازل ہوئی تھی آج وہی کتاب تہجر کا شکار ہو کر آواز دے رہی ہے کہ دیکھو کس طرح مجھے ہی میرے ماننے والوں نے خود اپنے ہی وجود میں منجمد کر دیا … میں تو منجمد شدہ پیکروں کو آواز حق کی گرمیسے پگھلا کر اشرف المخلوقات انسان کو کماک کی انتہا پر پہچانے آئی تھی لیکن آج میرا وجود ہی ایک حرف بن کر رہ گیا ہے ۔
علی تاریخ بشریت کی مظلوم ترین شخصیت، اتنی بڑی کائنات میں وہ اکیلا انسان جو صدیا ں گزر جانے کے بعد بھی آج وہیں اکیلا کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے تھا اس انتظار میں کے شاید اسے کچھ وہ لوگ مل جائیں جو اس کے دل میں موجزن دریائے معرفت کے گوہروں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا ظرف رکھتے ہوں، آج بھی علی تنہا ہے اسی طرح جیسے پہلے تنہا تھا۔ علی کی تنہائی تو کیا دور ہوتی بلکہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جا رہا ہے علی کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے بالکل قرآن کی طرح ۔
علی
اور قرآنکتنی یکسانیت ہے دونوں میں؟ سچ کتنی اپنائیت ہے دونوں میں؟ جیسے دونوں کا وجود ایک دوسرے ہی کے لئے ہو دونوں ایک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں … ایک دوسرے کے درد آشنا ہو مونس و ہم دم ہوں ہم راز و ساتھی ہوں ۔
کتنا عجیب اتفاق ہے امت محمدی کو مالک کی طرف سے دو عظیم عطیے ملے لیکن دونوں مظلوم ، دونوں تنہا ، دونوں درد کے مارے دونوں ستائے ہوئے لیکن آپس میں ہم آہنگ آپس میں ایک جاں دو قالب ہم آہنگ اس جہت سے کہ دونوں کا وجود رشد و ہدایت کی راہ میں مشعل راہ دونوں کا وجود مقدس، دونوں پاکیزہ، دونوں علم و معرفت کے بند ریچوں کو کھولنے والے، دونوں حقیقتوں سے روشناس کرانے والے دونوں صادق، دونوں خالق کے عظیم شاہکار حتی دونوں کا درد ایک دونوں کا غم بھی اس جہت سے ایک ہے کہ دونوں پر ظلم کرنے والے دوسرے نہیں خودانکے اپنے ہی ماننے والے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انہیں مقدس سمجھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انکی عظمتوں کا کلمہ پڑھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو دونوں کو ہر وقت ورد کرتے نہیں تھکتے۔
جس طرح آج کروڑوں لوگ اپنی زندگی میں صبح شام قرآن کا ورد کرتے نظر آتے ہیں ، قرآن کا تعویذ گلے میں ڈالے گھومتے ہیں قرآن کی آیتوں سے اپنے روز مرہ کے مسائل کو حل کرتے ہیں قرآن کی شفا بخش آیتوں سے اپنے امراض کو دور کرتے ہیں ،چھوٹی سی دکان سے لیکر بڑے بڑے مالوں تک میں قرآن کی آیات سجی رہتی ہیں کہانسے کاروبار میں برکت ہوتی ہے بڑی بڑی فیکٹریوں میں قرآنی آیات سے مزین طغرے سجے نظر آتے ہیں کہ حوادث روزگار اور بلائیں اس عمل سے دور ہوتی ہیں۔
لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ قرآن کیوں آیا تھا ؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کتنے لوگوں کو قرآنی معارف سے آشنائی ہے کتنے لوگ اس کے مفاہیم سے واقف ہیں؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ قرآنانسے کیا کہہ رہا ہے؟ کتنے لوگ …
اسی طرح علی کی ذات بھی ہے لوگ علی کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے صبح و شام علی علی کرتے ہیںانکی محفلوں میں علی کا نام ہے ، مجلسوں میں علی کا ذکر ہے تقریبوں میں علی کا چرچا ہے ، نشستوں میں علی علی خلوت کدوں میں علی کا ورد ہے جلوت میں علی ہی علی کی دھوم ہے لیکنانمیں کتنے ہیں وہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ یہ تاریخ کی عظیم اساطیری شخصیت کن اسرار کی حامل ہے؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ علی کی جن فضیلتوں کا تذکرہ وہ دن بھر کرتے ہیں وہ تمام فضیلتیں تو علی کے فضائل کے سمندر کا ایک قطرہ بھی تو نہیں علی کی ذات تو کچھ اور ہی ہے؟
علی کی ذات کو نہ سمجھنا ایک مسئلہ ہے علی ع کے درد سے ناواقفیت اور بات ہے کیا ہم نے سوچا علی کا درد کیا تھا ؟ علی کو کون سا غم کھائے جا رہا تھا علی کیوں مار گزیدہ کی طرح تڑپا کرتے تھے؟ علی کی ریش مبارک کیوں آنسووں میں تر ہو جاتی تھی علی نخلستانوں میں جا کر اپنا کون سا غم بیان کرتے تھے؟ علی کنویں میں منھ ڈال کر کیوں روتے تھے؟ آج جس ضربت نے سر علی کو دوپارہ کر دیا اس پر رونے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن وہ زخم زباں جنہوں نے علی کے حساس وجود کو اندر سے کرچی کرچی کر دیا اس پر رونے والا کوئی نہیں ملتا۔ وہ نشتر جو دل علی کے آر پار ہو گئے وہ بہت کم لوگوں کو نظر آتے ہیںانپر رونے والا کون ہے؟
کیا ہمیں علی کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے مصائب نظر آتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی خود سے سوال کیا کہ آخر وہ کون سی مصیبت تھی وہ کون سا جانکاہ غم تھا جسکی وجہ سے راتوں کو علی کنویں میں سر ڈال کر رویا کرتے تھے ،کاش ہم اس راز کو سمجھ پاتے جسے علی اپنے گریہ کے ذریعہ بنی نوع بشر تک منتقل کرنا چاہتے تھے واقعی عاشقان علی کو جہاں علی کی مصیبتوں کا غم ہے وہیںانکا دل یہ سوچ سوچ کر بھی پاش پاش ہونا چاہیے کہ علی ہم سے کیا کہنا چاہتے تھے ؟ وہ کون سی بات تھی جو علی اپنے چاہنے والوں سے کہنا چاہتے تھے کیا علی اپنے حق کی غصب ہو جانے کی وجہ سے گریہ کناں تھے یا علی کو اپنی شریک حیات فاطمہ زہرا سلام للہ علیھا پر پڑنے والی مصبیتں رلا رہی تھیں اور بعد فاطمہ علی فاطمہ بتول سلام اللہ علیھا کے غموں کو یاد کر کے روتے تھے؟ علی کو اپنی تنہائی کا غم تھا یا علی کو فراق رسول رونے پر مجبور کر رہا تھا ۔ آخر علی کیوں روتے تھے؟ ۔۔۔۔
تعداد صفحات : 3