loading...

خیبر صهیون تحقیقاتی ویب گاه

بازدید : 654
شنبه 2 خرداد 1399 زمان : 5:22

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، امریکی حکام کے پاس صہیونی ریاست کے جرائم سے چشم پوشی کے لیے ہمیشہ سے یہ بہانہ رہا ہے کہ صہیونی ریاست اپنی بہیمانہ جنگی کاروائیوں کے ذریعے اپنے جعلی وجود کو تحفظ دیتی ہے۔ اگرچہ اس جعلی ریاست کا مشرقی وسطیٰ میں کوئی مقام نہیں ہے لیکن صہیونی کسی بھی صورت میں اس چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی‌حضرت آیت اللہ خامنہ‌‌‌ای نے متعدد بار اپنے بیانات میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور اس پر تجزیہ و تحلیل کیا ہے۔ آپ نے ۳۱ اگست ۲۰۱۴ کو اپنی تقریر میں فرمایا: امریکی حکمرانوں کے نزدیک اسرائیل کا تحفظ بنیادی مسئلہ نہیں ہے،‌‌ان‌کے نزدیک بنیادی مسئلہ کچھ اور ہے۔‌‌ان‌حکمرانوں کے نزدیک بنیادی مسئلہ، اس صہیونی سرمایہ دار چینل کو راضی رکھنا ہے جس کے ہاتھ میں انکی رگ حیات ہے۔‌‌ان‌کی مشکل یہ ہے ورنہ اسرائیل ہو نہ ہو، انہیں اس سے کیا مطلب ہے؟ جو چیز‌‌ان‌کے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ‌‌ان‌کی رگ حیات صہیونی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے، جو انہیں رشوت دیتے ہیں، انہیں دھمکیاں دیتے ہیں، پیسے کی رشوت؛ یہودی انہیں پیسہ دیتے ہیں اور وہ‌‌ان‌سے پیسے لیتے ہیں۔ مقام کی رشوت؛ انہیں مقام کا وعدہ دیتے ہیں اور اگر وہ‌‌ان‌افراد کے ساتھ ساز باز نہ کریں جن کے ہاتھوں میں امریکی معیشت کی نبض ہے تو وہ اونچی پوسٹوں جیسے صدارت جیسے وزارت وغیرہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔‌‌ان‌کے لیے یہ مسئلہ ہے۔ انہیں دھمکیاں بھی دیتے ہیں، اگر چنانچہ یہ اس خطرناک چینل کے رجحان کے برخلاف کوئی اقدام کریں تو انہیں دھمکایا جاتا ہے، انہیں یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ ہم آپ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کریں گے یا آپ کے لیے ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کریں گے!۔ آپ نے امریکہ کے زندگی میں‌‌ان‌چیزوں کو حالیہ برسوں مشاہدہ کیا ہے۔ کسی پر تہمت لگاتے ہیں، کسی کو بدنام کرتے ہیں، کسی کے لیے جنسی اسکینڈل کا قصہ بناتے ہیں، کسی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے ہیں، کسی پر قاتلانہ حملہ کرتے ہیں،‌‌ان‌سب کاموں کے لیے‌‌ان‌کے ہاتھ کھلے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسئلہ اسرائیل کے تحفظ کا نہیں ہے مسئلہ خود‌‌ان‌کے اپنی سلامتی ہے۔

ایران اور اسرائیل کی براہ راست لڑائی کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا: ایرن اٹزیون
بازدید : 916
جمعه 18 ارديبهشت 1399 زمان : 18:21

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:
مقدمہ
حالیہ برسوں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، ہندوستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کے اعلی درجے کے دفاعی سسٹم اور فوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ ہندوستان‌‌ان‌ممالک سے رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آگے ہیں اور چونکہ اسرائیل بھی ایک ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے اس لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اور پھر ہندوستان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل امریکہ کے نزدیک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا درحقیقت امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب سے اسرائیل بھی ایشیائی ممالک مخصوصا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کو اپنے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وزن دار ملک سمجھتا ہے اس لیے کہ پاکستان تنہا اسلامی‌ملک ہے جو ایٹمی‌طاقت کا مالک ہے اور اس پر دباؤ رکھنے کے لیے اسرائیل کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا گویا اس کی مجبوری بھی ہے اور پھر پاکستان اور مسلمانوں کو دھشتگرد قرار دے کر اسرائیل آسانی سے ہندوستان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان کی ہندوستان کے بارے میں گفتگو آپ کو یاد ہو گی جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’میرے خیال میں ہندوستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں سے ہم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی بخوبی رہنمائی کر سکتے ہیں‘‘۔ بعض اسرائیلی محققین جیسے ’آبراہام سیگال‘ اور ’ہیری ایسریگ‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ہندوستان اسرائیل کے نزدیک ایک عظیم اخروٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسرائیل نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اب اسے صرف توڑنا باقی ہے‘‘۔ (ابوالحسنی، ۱۳۷۷؛ ۴۴۰)
بھارت اور اسرائیل تعلقات پر تاریخی نظر
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ایک طرف سے ہندوستان کے مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت کے خواہاں تھے اور دوسری طرف سے عرب ممالک بھی ناوابستہ تحریک کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کے قریب نہ جائے۔ لیکن ۱۹۶۲ میں بھارت چین جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی دفاعی قوت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی فوجی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۹۲ تک سیاسی روابط محدود اور خفیہ رہے۔ آخر کار ۱۹۹۲ میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہندوستان نے اپنی نئی اسٹریٹجک پالیسیوں کے تحت‌‌ان‌تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور صہیونی ریاست کے ساتھ سیاسی روابطہ کو وسیع اور علنی کر دیا۔ (ملکی، ۱۳۸۹؛ ۴۷)
۱۹۹۲ میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتے ہی غیر معمولی حجم کے دوطرفہ تجارتی اور سکیورٹی معاہدے شروع ہو گئے اور حالیہ دنوں میں یہ روابط سکیورٹی تعاون، سیٹلائٹ سسٹم، پیشرفتہ میزائل، ایٹمی‌سرگرمیوں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی‌کے معاہدوں کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر چہ ہندوستان اور اسرائیل کے سامنے پائے جانے والے خطرات ایک جیسے نہیں ہیں اور‌‌ان‌کا کوئی مشترکہ دشمن نہیں ہے اس کے باوجود دونوں ملک اپنے دفاعی سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے نزدیک اسرائیل جدید دفاعی سسٹم کو اپڈیت کرنے کے لیے ایک قابل بھروسہ ملک ہے اور اسرائیل کے لیے بھی ایشیا میں تزویری اعتبار سے بھارت ایک مستحکم اتحادی شمار ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو نسل پرستی کے زور پکڑ جانے اور بھارتیا جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت و اسرائیل کے درمیان روابط ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ مثال کے طور پر ۱۹۹۱، ۹۲ میں فوجی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے تقریبا دو ملکوں کے درمیان لگ بھگ پچاس ملاقاتیں اور معاہدے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی معیشتی مشکلات اور اسرائیلی ساخت کے ہتھیاروں کی نامرغوب کیفیت کے باوجود دونوں ملکوں میں بعض فوجی ساز و سامان جیسے ہلکے طیارے، ارجن ٹینک (مرکاوا) پریٹوی میزائل(جریکو ۱)، (جریکو ۲) نیز مشترکہ فوجی تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا رد و بدل کیا گیا۔ (کلانتری، ۱۳۸۸؛ ۹)
چنانچہ اگر ہندوستان اور اسرائیل کے گہرے تعلقات اور اس کے ایران و ہند تاریخی روابط پر پڑنے والے اثرات کو مزید گہرائی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو درج ذیل تین بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ضروری ہوں گے:
۱؛ کیا حقیقت میں اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات تزویری ہیں؟
۲؛ اس حساسیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو ایران اور عرب ممالک تل ابیب و نئی دہلی کے روابط کی نسبت رکھتے ہیں ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری روابط بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں؟
۳؛ کیا ہندوستان کا اسرائیل سے اسٹریٹجک روابط بڑھانے کا مقصد امریکہ سے نزدیک ہونا ہے؟
مذکورہ سوالات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان علاقے میں خصوصا چین کے مقابلے میں بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اسرائیل اس کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے اعتبار سے بہترین آپشن ہے۔
جاری

موساد کی جاسوس ایجنسیوں میں عورت کا استعمال/ موساد کی ابابیلیں

تعداد صفحات : 3

آمار سایت
  • کل مطالب : 37
  • کل نظرات : 0
  • افراد آنلاین : 2
  • تعداد اعضا : 0
  • بازدید امروز : 56
  • بازدید کننده امروز : 50
  • باردید دیروز : 20
  • بازدید کننده دیروز : 21
  • گوگل امروز : 0
  • گوگل دیروز : 0
  • بازدید هفته : 325
  • بازدید ماه : 1834
  • بازدید سال : 23464
  • بازدید کلی : 54220
  • کدهای اختصاصی