خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عام طور پر جب لفظ “جاسوس” سامنے آتا ہے تو ذہنوں میں ایک خوفناک یا نقاب پوش مرد ابھر آتا ہے حالانکہ تاریخ میں کم نہ تھیں ایسی عورتیں جنہوں نے خفیہ معلومات منتقل کرکے جنگوں کا رخ موڑ لیا ہے اور ممالک کے مقدرات کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ عورتوں کا جاسوسی کے لئے استعمال دو اہم دلیلوں پر استوار ہے:
۱۔ عورتیں بہت زیادہ حساسیت کا باعث نہیں بنتیں اور لوگ انہیں دیکھ کر بدظن نہیں ہوا کرتے۔ بطور مثال دوسری عالمیجنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں فرانسیسی مردوں کی تلاشی کا امکان عورتوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ اسی بنا پر اس دور میں خاتون جاسوساؤں کی تعداد میں بہت نمایاں اضافہ ہوا۔
۲۔ خواتین اپنی ظاہری جاذبیت اور دلفریبی کی بنا پر مردوں کو بہ آسانی دھوکہ دے سکتی ہے اور انہیں خفیہ معلومات فاش کرنے پر آمادہ کرسکتی ہیں۔
جاسوس عورتیں دو قسم کی ہیں: معمولی جاسوسائیں اور وہ جاسوسائیں جنہیں چڑیوں کا لقب دیا جاتا ہے۔
جاسوس عورتیں ـ جنہیں “ابابیلوںswallows” کے نام سے استعمال کیا جاتا ہے ـ ضعیف نفس اور شہوت پرست جنسی حربے بروئے کار لاکر اپنے متعلقہ جاسوسی اداروں کے منصوبے پر عمل کرتی تھیں۔
گولڈا مائیر
گولڈا مائیر ((Golda Meir جو ماضی میں یہودی ریاست کی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم رہی ہے، کو اسرائیلی ابابیلوں کی بڑی اماں کہا جاتا ہے۔
مائیرانہی ابابلیوں میں سے ایک تھی جو روسی سیاح کے طور پر اردن میں داخل ہوئی اور اردن کے فوجی حکام اور اعلی افسروں کی رہائشگاہوں کے قریب قیام پذیر ہوئی؛ کچھ عرصہ بعد اور بہت زیادہ آمد و رفت کے بعد،انافسروں کے ساتھ دوستی کے رشتے میں منسلک ہوئی اورانکی خصوصی محافل میں داخل ہوئی۔
گولڈا مائیر نے جسم فروشی کے حربے کے ذریعے یہودی ریاست پر اردن کے حملے کے منصوبے سمیت بہت اہم راز حاصل کئے۔ وہ اسی حربے کے ذریعے اردن کی کچھ فوجی تنصیبات تک میں بھی داخل ہوئی اور وہاں کی نہایت اہم معلومات حاصل کرلیں۔
زیپی لیونی
گولڈا مائیر کے بعد یہودی ریاست کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) بھی ایک “ابابیل” تھی۔ لیونی ۱۹۸۰ کے عشرے میں یورپ میں موساد کی جاسوسہ تھی اور اس کا کوڈ نیم “اسپارو – (Sparrow چڑیا)” تھا۔ اس نے بھی جنسی تعلقات برقرار کرکے موساد کی ضرورت کی معلومات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نشانہ یورپی سیاستدان تھے۔ اس کو موساد بیوٹی (Mossad beauty) کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔
موساد نے مردخائے وانونو کی گرفتاری کے لئے بھی اسی روش سے فائدہ اٹھایا:
موساد نے اپنی جاسوسی کاروائیوں کی ایک مشہورترین کاروائی ـ جس میں اس نے عورتوں کا آلاتی استعمال (Instrumental use) کیا ـ مشہور ایٹمیسائنسدان مردخائے وانونو (Mordechai Vanunu جو John Crossman کے نام سے بھی مشہور ہے) کی گرفتاری کے لئے ہونے والی کاروائی تھی۔ اس شخص نے یہودی ریاست کی عسکری ایٹمیسرگرمیوں سے متعلق سرگرمیوں کو برطانیہ جاکر فاش کرتے ہوئے شائع کردیا تھا۔ وانونو موساد کے نشانے پر تھا۔ وہ اسے یورپ سے اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین منتقل کرنا چاہتی تھی۔ موساد کے گماشتوں نے اس کو بھیانہی ابابیلوں کے ذریعے پھنسا کر گرفتار کیا۔
چیریل بنتوف (Cheryl Bentov) جو چیریل ہنین (Cheryl Hanin) کے نام سے مشہور تھی نے کینڈییا سینڈی (Cindy) کوڈ نیم کے تحت وانونو کے قریب پہنچی اور اس کے اس جال میں پھنسایا جو موساد نے اس کے لئے پھیلایا ہوا تھا، چنانچہ اسے بےہوش اور اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین پہنچایا گیا تا کہ یہاں اس کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔
اور ہاں یہ حربہ یہودیوں کے درمیان بہت پرانا ہے۔
پہلی عالمیجنگ میں یہودی جاسوسوں کا ایک سیل نیلی (Nili) کے نام سے برطانیہ کی خدمت میں مصروف تھا اور انہیں بظاہر وعدہ دیا گیا تھا کہانکیانخدمات کے بدلے میں جنگ کے بعد انہیں ایک یہودی ریاست بطور تحفہ دے جائے گی۔ سارا ارونسن (Sarah Aaronsohn)انہی جاسوسوں میں شامل تھی ـ جو ترک سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور موت کی سزا پانے سے پہلے اعتراف کیا کہ اس کی آخری آرزو یہودی ریاست کا قیام ہے ـ جس کو یہودی اپنی ہیروئن ابابیل کا نام دیتے ہیں۔
یہودیت کے دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) نے تو فتوی دے دیا اور دعوی کیا کہ یہ یہودی دین کا حکم ہے کہ اسرائیل کے امن کے لئے بہت اہم اور حیاتی معلومات کے حصول کے لئے عورتوں کو دہشت گردوں اور دشمنوں کے ساتھ “ہم خوابگی” تک کی اجازت ہے اور مغربی اخباروں نے بھی لکھا کہ: “Rabbi Ari Shvat declares sleeping with the enemy kosher” یعنی دشمن کے ساتھ ہم خوابگی حلال ہے!
اس رپورٹ کے مطابق، شوات نے اعلان کیا ہے خاتون ایجنٹوں کے لئے دہشت گردوں (یعنی فلسطین کی آزادی کے لڑنے والے مجاہدین اور دیگر جنگجؤوں نیز مخالفین) کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرنا جائز ہے تاکہ یہ رابطہانکی گرفتار پر منتج ہوجائے۔ اس یہودی رابی کی تحقیقی کاوش بعنوان “غیر قانونی رابطہ قومیسلامتی کے سلسلے میں” بیت المقدس کے قریب یہودی آبادکاروں کی بستی “گوش عتصیون (Gush Etzion)” سے شائع ہوئی ہے۔
ایک یہودی جاسوسہ یائیل (شایدYeil) کا کہنا ہے کہ: “زنانہ ادائیں جاسوسی کے مشن میں بہترین کردار ادا کرتی ہیں”۔
اس کا کہنا ہے: “عورت بعض اوقات جاسوسی مشنز میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھاتی ہے؛ جو مرد ممنوعہ علاقوں میں داخل ہونا چاہے تو اسے کامیابی کے لئے بہت کم مواقع میسر آتے ہیں؛ جبکہ ایک جاذب نظر ہنستی مسکراتی عورت کے لئے کامیابی کے مواقع بہت زیادہ ہیں”۔
موساد کی اعلی خاتون آپریشنل کمانڈر “اِفرات Efrat” کہتی ہے: “ہم اپنی نسوانیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ کامیابی کے لئے ہر کام جائز ہے”۔
واضح رہے کہ یہودی ادارے موساد کے دنیا بھر کے جاسوسی ادارے بھی اس روش کو بروئے کار لاتے ہیں۔
بازدید : 514
جمعه 18 ارديبهشت 1399 زمان : 18:21