loading...

خیبر صهیون تحقیقاتی ویب گاه

بازدید : 788
شنبه 2 خرداد 1399 زمان : 5:22

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ماہ مبارک کا آخری جمعہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے یوم القدس کے نام سے موسوم ہوا تاکہ مسلمانان عالم صہیونیت کے خلاف اتحاد اور یکجہتی کا ثبوت دیں اور قدس شریف کی آزادی کے لیے قدم اٹھائیں۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے یوم القدس کے موقع پر امام صادق (ع) یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ’محمد ہادی ہمایون‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جس کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں؛
خیبر: مسئلہ فلسطین خصوصا عالمی‌یوم القدس اور اس کی اہمیت کے حوالے سے آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
انقلاب اسلامی‌کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں ہی امام خمینی (رہ) کی جانب سے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا جانا ایک انتہائی حکیمانہ اقدام تھا جس سے نہ صرف دنیا کے مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین اور قدس کی جانب متوجہ کیا بلکہ اسلامی‌انقلاب کی آواز کو بھی دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔
اگر ہم یہاں پر یوم قدس کے بارے میں امام خمینی (رہ) کے بیانات پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ آپ نے کتنی وضاحت سے اس مسئلے کو بیان کیا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ’’یوم قدس کا مسئلہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔‘‘، اگر چہ اس دن مرکزیت اسی مسئلے کو ہے لیکن منحصرا یہی مسئلہ یوم قدس کا مسئلہ نہیں ہے، ’’یوم قدس وہ دن ہے جس دن اسلامی‌انقلاب جو ایران میں تشکیل پایا ہے کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جائے، ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر جانا جائے اور تمام اسلامی‌ممالک میں یہ انقلاب پہنچنوایا جائے‘‘۔
میری نظر میں یوم القدس کی فکر ایک آسمانی فکر ہے اسے ہمیشہ تاریخ میں باقی رہنا چاہیے جب تک کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہوتا یہ دن پوری شان و شوکت سے منایا جانا چاہیے اس لیے کہ یہ حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی کو ظاہر کرنے والا دن ہے جیسا کہ قیامت کی ایک صفت یہ ہے کہ اس دن حق و باطل ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے حق و باطل کے درمیان یہ ملاوٹ ہے جو بہت ساروں کی گمراہی کا باعث بنتی ہے اور بہت سارے لوگ اس سے درست تجزیہ و تحلیل نہیں کر سکتے ۔
میری نظر میں یہ اہم ترین کنجی ہے جو ہمیں ظہور کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور ظہور کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ ظہور کا مطلب یہ ہے کہ حق ظاہر اور آشکار ہو گا، ظہور کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ امام چھپ گئے ہیں اور ایک دم ظاہر ہو جائیں گے، نہیں، امام تو ہمارے درمیان اسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں ہمارے اندر‌‌ان‌کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں ہے ظہور کے وقت جو چیز رونما ہو گی وہ یہ ہے کہ حق جو باطل کے ساتھ گڈ مڈ ہو چکا ہے وہ ظاہر و آشکار ہو گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جعلی صہیونی ریاست ایک ملک سے وہاں کے رہنے والے لوگوں کو نکال کر باہر کر دے اور دوسرے ملکوں سے اپنے ہم فکر لوگوں کو اکٹھا کر کے اپنی حکومت قائم کر لے اور دنیا خاموش تماشا دیکھتی رہے بلکہ اس کی حمایت کرے کہ تم نے اچھا کیا ہے تو ایسے میں آپ سوائے اس کے اور کیا کہیں گے کہ حق اور باطل آپس میں گڈ مڈ ہو چکے ہیں۔ ایک غاصب حکومت ۷۰ سال سے ایک ملت کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہو بچوں عورتوں بوڑھوں کا قتل عام کر رہی ہو اور دنیا کا کوئی انسان حتیٰ الہی ادیان کے ماننے والے مسلمان اور غیر مسلمان سب اس جعلی حکومت کی حمایت کرنے لگیں اور اس کے ظلم و ستم سے چشم پوشی کر لیں یہ حق وباطل میں آمیزش نہیں تو اور کیا ہے؟
یوم قدس حق و باطل کے ایک دوسرے سے الگ کرنے کا نام ہے حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کا دن ہے۔ دنیا والے اس دن پہچانیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ دنیا میں حق کے حامی‌کتنے ہیں اور باطل کا ساتھ دینے والے کتنے ہیں؟

כולם הם קדושי קודס.
بازدید : 956
شنبه 2 خرداد 1399 زمان : 5:22

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی ریاست کی قومی‌سلامتی کے سابق نائب سربراہ نے ہاآرتص کے ساتھ اپنے مکالمے میں ایران کے ساتھ جنگ سے خوف، ایران کو شام سے نکال باہر کرنے میں اس ریاست کی بےبسی، ریاست کی تزویری کمزوریوں، ۷۰ سال گذرنے کے بعد بھی یہودی ریاستی ڈھانچے کے نقائص کی طرف اشارے ہوئے ہیں نیز کینیڈا کے حکام کے ساتھ ایک ایرانی سفارتکار کی پنجہ آزمائی کا قصہ بھی بیان ہوا ہے۔
“ایران کے ساتھ جنگ ایک ایسی چیز ہے جسے میں تصور ہی نہیں کرنا چاہتا”، یہ جملہ “ایرن اٹزیون” (Eran Etzion) کا ہے جو برسوں تک یہودی ریاست کی سلامتی کونسل اور وزارت خارجہ میں کام کرتے رہے ہیں۔ یہاں صہیونی اخبار “ہاآرتض” (Haarrestz) کے ساتھ “اتزیون” کا تفصیلی مکالمہ پیش خدمت ہے جس میں ایران اور یہودی ریاست کے درمیان جنگ کے امکان پر روشنی ڈالتے ہیں اور اپنی پوزیشن واضح کردیتے ہیں۔
لگتا ہے کہ سبکدوشی یا برطرفی اور دنیاوی منفعتوں سے ناامیدی کے بعد یا پھر انتقامی‌کاروائی کرتے ہوئے یہودی و نصرانی ماہرین سچ بولنا شروع کردیتے ہیں اور حقائق بیان کرنے لگتے ہیں، یا شاید‌‌ان‌کے مقاصد کچھ اور ہیں!!
اتزیون ۱۹۹۲ میں صہیونی وزارت خارجہ میں پہنچے اور بعد کے برسوں میں قومی‌سلامتی کونسل کے نائب سربراہ کے عہدے تک بھی ترقی کرگئے؛ ۲۰۱۳ میں انہیں واشنگٹن میں یہودی سفارتخانے کا ناظم الامور مقرر کیا جانا تھا لیکن‌‌ان‌ہی برسوں میں‌‌ان‌سفارتکاروں کے زمرے میں قابل سزا قرار پائے جنہوں نے تل ابیب کی مرضی کے بغیر ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
ہاآرتض کے ساتھ‌‌ان‌کے اس مکالمے پر نیتن یاہو کا دفتر بھی سیخ پا ہے جس نے اتزیون کی باتوں کو “بکواس” اور “سچائی سے عاری” جیسے خطابات سے نوازا ہے۔
حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا خطرناک انجام، ایران کے ساتھ جنگ کے ناقابل تصور نتائج
۔ اس وقت شام سب سے زیادہ مشتعل نقطہ ہے جہاں ہم نچلی سطح کی جنگ میں مصروف ہیں لیکن اس میں شدت آسکتی ہے کیونکہ اس وقت ہمہ جہت لڑائی اور ہمارے درمیان روس حائل ہے اور نیتن یاہو مسلسل کہے جارہے ہیں کہ “ہمارا مقصد ایران کو شام سے نکال باہر کرنا ہے”؛ اور دوسرے حکام بھی‌‌ان‌ہی کی بات کو دہراتے رہتے ہیں۔ جبکہ اس ہدف تک پہنچنا ہماری قوت سے خارج ہے اور اگر ہم اصرار کریں تو جنگ چھڑ سکتی ہے اور وہ ایک غیر مستحکم ماحول میں، اور وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں ایرانی بھی موجود ہیں اور وہ حزب اللہ کے حامی‌ہیں؛ اور ترکی بھی اس جنگ میں شریک ہے۔ اس وقت روشوں کا تعین روسیوں کے ہاتھ میں ہیں؛ اس لئے کہ وہ اس میدان کے تمام کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں؛ لیکن وہ ایرانیوں سے کچھ کہتے ہیں اور اسرائیلیوں سے کچھ۔ صرف ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ اپنے فوجی دستے شام سے نکال رہا ہے، ایک ہلا دینے والا واقعہ رونما ہونے والا ہے: پہلی بار ایرانیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان عسکری تصادم کا امکان پیدا ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ صورت حال ہمہ جہت لڑائی میں بدل جائے۔
۔ کیا مطلب؟
مطلب یہ ہے کہ اگر حزب اللہ اس میدان میں اترے اور تل ابیب اور دوسرے شہری مراکز میں تباہی اور بربادی کا آغاز ہوجائے تو اس کی سطح بہت وسیع ہوگی، جس کی مثال اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھی ہے۔ ہمارے پاس حزب اللہ کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہ ہوگا۔ صرف جواب دینے کا راستہ ہوگا۔ لیکن اگر بیروت تل ابیب کی بربادی کے بدلے میں تباہ ہوجائے، تو کیا اس سے کسی کو چین حاصل ہوسکے گا؟ لیکن جب اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ کا انجام کچھ ایسا ہو جس کی مثال گذشتہ تاریخ میں نہیں پائی جاتی تو اس صورت میں یقینا ایران اور اسرائیل کی براہ راست لڑائی کا انجام کچھ ایسا ہوگا جس کے بارے میں، میں سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ اگرچہ بدقسمتی سے میں ایسے عہدوں پر فائز رہا ہوں جہاں مجھے اس کے بارے میں سوچنا پڑتا رہا ہے۔ اس کی ایک قابل اعتماد مثال ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ ہے جس میں ۱۰ لاکھ افراد کام آئے۔
تزویری گہرائی، ایران کی تاریخ اور کینیڈین حکام کو ایرانی سفارتکار کا طعنہ
۔ کیا اسرائیل ایران سے زیادہ طاقتور نہیں ہے؟
۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کس چیز کو طاقت کا معیار سمجھتے ہیں؟ ایک کلیدی جملہ ہے جس کو “تزویری گہرائی Strategic Depth” کہتے ہیں۔ ایرانیوں نے حال ہی میں موجودہ کشمکش کے دوران اس جملے کو استعمال کیا ہے۔ ایک اعلی ایرانی اہلکار نے کہا کہ “یہودی ریاست کو سوچنا چاہئے کہ اس کی کوئی تزویری گہرائی نہیں ہے”۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ابتدائی اصولوں کی طرف جانا چاہئے۔ اسرائیل کے پاس عسکری طاقت ہے لیکن ایران کے پاس ایک عظیم جغرافیہ، آٹھ کروڑ کی آبادی اور کئی ہزار سالہ تاریخ ہے۔ ایران ایک تہذیب ہے۔ تل ابیب میں مقیم ایک کینیڈین سفیر نے ایک دفعہ میرے ساتھ بات چیت کے دوران کہا: ایک مرتبہ کینیڈا کی وزارت خارجہ کے حکام اور وہاں مقیم ایرانی سفیر کے درمیان ملاقات ہوئی تو ایرانی سفیر نے کمرے میں پڑے ہوئے قالین کی طرف اشارہ کیا اور کہا: “ایران ایک پارسی قالین ہے جس کے بُننے میں ۵۰۰۰ سال کا طویل عرصہ لگا ہے جبکہ کینیڈا اس قالین پر پڑی ہوئی دھول کی باریک سی تہہ کی مانند ہے”۔
ایرانی ایک غرور آمیز وہم میں مبتلا ہیں، وہ عظمت رفتہ کے بارے میں سوچتے ہیں اور اب جبکہ علاقہ کمزور پڑ گیا ہے تو وہ محسوس کررہے ہیں کہ عظمت رفتہ کے احیاء کا امکان حاصل ہوا ہے؛ وہ جب اپنی تزویری حکمت عملیوں کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں تو‌‌ان‌کی حد نظر جبل الطارق تک پہنچتی ہے؛ اور یہ جو ہم ابھی تک احتیاط کررہے تھے کہ ایران کے ساتھ براہ راست لڑائی سے بچے رہیں، یہ ایک حادثاتی موضوع نہیں تھا بلکہ ایک دانشمندانہ پالیسی تھی اور دانشمندی یہ ہے کہ ہم پھر بھی محتاط رہیں، میں فکرمند ہوں کیونکہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ احتیاط برتنے میں ماضی جیسی سختگیری کا فقدان ہے۔
۔ لگتا ہے کہ اسرائیل کی رائے عامہ آپ سے متفق نہیں ہے، یہاں بہت سوں کا خیال ہے کہ اسرائیل بہت طاقتور ہے اور کوئی غیر متوقعہ واقعہ رونما نہیں ہوگا۔
۔ غلط بات ہے؛ اگر آپ کو یاد ہو ایک دن وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ سیکورٹی کابینہ کی نشست منعقد ہونے کو ہے، تو اس کے بعد پریشانی اور ذہنی و فکری افراتفری اور افواہوں نے پورے معاشرے کو گھیر لیا یہاں تک کہ ایک بیانیہ جاری ہوا اور اعلان ہوا کہ “فکرمندی کی ضرورت نہیں ہے، کوئی ناگوار حادثہ رونما نہیں ہوا ہے”۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہماری رائے عامہ مکمل طور پر ہوشیار ہے، اور جانتی ہے کہ ہماری حالت اچھی ہے لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی رکھتی ہے کہ برف کی جس تہہ پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں کس قدر نازک اور زد پذیر ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوم قدس حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی کو ظاہر کرنے کا دن ہے: ڈاکٹر ہمایون
بازدید : 654
شنبه 2 خرداد 1399 زمان : 5:22

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، امریکی حکام کے پاس صہیونی ریاست کے جرائم سے چشم پوشی کے لیے ہمیشہ سے یہ بہانہ رہا ہے کہ صہیونی ریاست اپنی بہیمانہ جنگی کاروائیوں کے ذریعے اپنے جعلی وجود کو تحفظ دیتی ہے۔ اگرچہ اس جعلی ریاست کا مشرقی وسطیٰ میں کوئی مقام نہیں ہے لیکن صہیونی کسی بھی صورت میں اس چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی‌حضرت آیت اللہ خامنہ‌‌‌ای نے متعدد بار اپنے بیانات میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور اس پر تجزیہ و تحلیل کیا ہے۔ آپ نے ۳۱ اگست ۲۰۱۴ کو اپنی تقریر میں فرمایا: امریکی حکمرانوں کے نزدیک اسرائیل کا تحفظ بنیادی مسئلہ نہیں ہے،‌‌ان‌کے نزدیک بنیادی مسئلہ کچھ اور ہے۔‌‌ان‌حکمرانوں کے نزدیک بنیادی مسئلہ، اس صہیونی سرمایہ دار چینل کو راضی رکھنا ہے جس کے ہاتھ میں انکی رگ حیات ہے۔‌‌ان‌کی مشکل یہ ہے ورنہ اسرائیل ہو نہ ہو، انہیں اس سے کیا مطلب ہے؟ جو چیز‌‌ان‌کے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ‌‌ان‌کی رگ حیات صہیونی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے، جو انہیں رشوت دیتے ہیں، انہیں دھمکیاں دیتے ہیں، پیسے کی رشوت؛ یہودی انہیں پیسہ دیتے ہیں اور وہ‌‌ان‌سے پیسے لیتے ہیں۔ مقام کی رشوت؛ انہیں مقام کا وعدہ دیتے ہیں اور اگر وہ‌‌ان‌افراد کے ساتھ ساز باز نہ کریں جن کے ہاتھوں میں امریکی معیشت کی نبض ہے تو وہ اونچی پوسٹوں جیسے صدارت جیسے وزارت وغیرہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔‌‌ان‌کے لیے یہ مسئلہ ہے۔ انہیں دھمکیاں بھی دیتے ہیں، اگر چنانچہ یہ اس خطرناک چینل کے رجحان کے برخلاف کوئی اقدام کریں تو انہیں دھمکایا جاتا ہے، انہیں یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ ہم آپ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کریں گے یا آپ کے لیے ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کریں گے!۔ آپ نے امریکہ کے زندگی میں‌‌ان‌چیزوں کو حالیہ برسوں مشاہدہ کیا ہے۔ کسی پر تہمت لگاتے ہیں، کسی کو بدنام کرتے ہیں، کسی کے لیے جنسی اسکینڈل کا قصہ بناتے ہیں، کسی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے ہیں، کسی پر قاتلانہ حملہ کرتے ہیں،‌‌ان‌سب کاموں کے لیے‌‌ان‌کے ہاتھ کھلے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسئلہ اسرائیل کے تحفظ کا نہیں ہے مسئلہ خود‌‌ان‌کے اپنی سلامتی ہے۔

ایران اور اسرائیل کی براہ راست لڑائی کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا: ایرن اٹزیون
بازدید : 712
چهارشنبه 30 ارديبهشت 1399 زمان : 9:23

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج سینما کا کردار ایک مقبول ذریعۂ ابلاغ کے طور پر عوام کی زندگی میں بہت اہم ہے کیونکہ لوگ اسے تفریح کے لئے دیکھتے ہیں لیکن انجانے میں اس سے اثر لیتے ہیں۔ سینما نے جاذب اور دلچسپ ہونے کے ناطے عالمی‌معاشروں کے رویوں، طرز زندگی اور حتی کہ سیاسی، معاشی اور ثقافتی رویوں اور افکار کو متاثر کردیا ہے۔ اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ مغرب اور ہالیووڈ نے کس طرح اقوام کے طرز زندگی کو بدل ڈالا ہے اور انسانی معاشروں کو سیکولرزم اور لبرل معاشرے کی طرف پہنچا دیا ہے۔ (۱)
دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی سینما بالخصوص ہالی ووڈ نے ابتداء ہی سے یہودیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ “نیل گیبلر” اگرچہ اپنی مشہور کتاب “ان کی اپنی سلطنت” (۲) (یا ہالیووڈ کی سلطنت) میں سینما انڈسٹریز کی تخلیق کو تھامس ایڈیسن (۳) اور‌‌ان‌کے رفقائے کار سے منسوب کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے مہاجر یہودی ہی تھے جنہوں نے اس صنعت کو اپنے قبضے میں لیا اور اس کو اپنی مرضی سے بدل ڈالا۔ “یونیورسل پکچرز” (۴) “پیراماؤنٹ پکچرز”، (۵) “وارنر برادرز” (۶) “نیوز کارپوریشن” (۷) “ٹوینٹی فرسٹ سنچری فوکس” (۸) اور بہت سی دوسری فلم ساز کمپنیاں یہودی ہیں۔
سینمائی صنعت کے یہودیوں کے صہیونیت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور ہیں۔ (۹) اس دعوے کے اثبات کے لئے اس سینما اور متعلقہ کمپنیوں اور فلمسازوں کے افسانوی کرداروں نیز “اعلی نسل”، “مادر وطن”، “برگزیدہ قوم” وغیرہ جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ (۱۰) حقیقت یہ ہے کہ یہ سینما “ہالوکاسٹ”، (۱۱) “حضرت موسی(ع) کی زندگی” جیسی فلموں اور “مرغی کا فرار” (۱۲)انیمیشن فلموں کے ذریعے صہیونیت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صہیونیت کے مقاصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے۔ (۱۳)
چنانچہ آخرالزمان، یا اختتام دنیا (۱۴) پر اس سینما کی خاص توجہ یہودی صہیونیت کے افکار کے زیر اثر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرالزمانی یا صہیونی تصور کی جڑیں صہیونی عیسائیت کی دینیات، پالیسیوں اور مختلف قسم کے اہداف و مقاصد میں پیوست ہے کیونکہ یہودیوں نے تاریخ کے مختلف مراحل میں عیسائیت کو مسابقت کے میدان سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی اور اسے منحرف کرکے مختلف فرقوں میں بانٹ دیا۔ اس تفرقے اور تحریف سے “صہیونی عیسائیت” نامی‌ناجائز اولاد نے جنم لیا جس کے مقاصد، اہداف اور عقائد اختتام دنیا پر اس کی نگاہ، وہی یہودی اور صہیونی نگاہ ہے۔ (۱۵)
البتہ اس حقیقت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ یہودیوں کا آخرالزمانی سینما “دانیایل [دانیال] نبی”، “یرمیاہ نبی” اور “حزقی ایل” کی کتابوں اور “دانی ایل (یا دانیال) کے مکاشفات” سے ماخوذ ہے۔‌‌ان‌کاوشوں میں آخرالزمان کے مفاہیم علامتی سانچوں میں ڈھالے جاتے ہیں، لہذا‌‌ان‌کی تشریح اور تاویل کی جاسکتی ہے اسی بنا پر آخرالزمان سے متعلق مختلف فلموں میں مختلف قسم کے مثبت اور منفی افسانوی کردار یونانی، مصری، رومی، عیسائی (وغیرہ) ثقافتوں سے لئے جاتے ہیں۔
عنوان عکس: فلم میٹرکس (The Matrix)
ہیروسازی، نجات دہندہ کا اعتقاد، نہایت طاقتور شیطانی قوتیں، جارحین کے خلاف تشدد اور عسکریت پسندی کی ضرورت، نیز ملک اور سرزمین پر شیطان اور شر کی قوتوں کا قبضہ صہیونیوں کی آخرالزمانی فلموں کے بنیادی عناصر ہیں۔‌‌ان‌فلموں میں مختلف نام اور پیغامات صہیونی مقاصد اور اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرفلم “میٹرکس” (۱۶) میں ہم دیکھتے ہیں کہ سایون (۱۷) نامی‌شہر کے باشندے ـ یعنی صہیونی ـ ہی دنیا بھر کے جنگجو ہیں جو میٹرکس نامی‌شریر اور بہت طاقتور کمپیوٹر کے خلاف لڑتے ہیں۔
لیکن اس قسم کی فلموں میں جن عناصر کو بروئے کار لایا جاتا ہے وہ خفیہ فرقوں، شیطان، اور شیطان پرستی سے عبارت ہیں جو یہودی علم باطن یا قبالہ (۱۸) کے ساتھ براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پانچ حصوں پر مشتمل فلم “منحوس طالع” (۱۹) اور سلسلہ وار فلم “جن نکالنے والا” (۲۰)‌‌ان‌فلموں میں شامل ہیں جو انسانی زندگی پر شیطان کے براہ راست تسلط کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ نیز فلم سیریز “ہیری پوٹر”(۲۱) میں بھی ـ گوکہ بالواسطہ طور پر جادو کے سانچے میں، جہاں “لارڈ وولڈیمورٹ” (۲۲) نامی‌شیطان کا کردار سامنے آتا ہے ـ اسی موضوع کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ (۲۳)
اسی اثناء میں اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی بھی مختلف مدارج و مراتب میں،‌‌ان‌آخرالزمانی فلموں میں بطور، مد نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ موضوع بھی قبالہ مکتب (یہودی علم باطن یا تصوف) کی خاص قسم کی شیطان شناسی، کے تصور اور آخرالزمانی سینما کو حاصلہ صہیونی حمایت سے جنم لیتا ہے۔ (۲۴) فلم “وش ماسٹر” (۲۵) میں شیطان ایک مجسمے کے ساتھ ایران سے امریکہ آتا ہے، فلم “جن نکالنے والا” سیریز میں شیطان سرزمین نینوا میں ملتا ہے۔ “ورلڈ وار زیڈ” (۲۶)میں مسلم زومبی ہیں جو دیوار فاصل سے گذر کر یہودیوں کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں کہنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامی‌صہیونیت کے اندر ایک قاعدہ ہے کہ جو نسل، جماعت یا ملک اس کا مخالف ہو، وہ اس کو براہ راست یا بطور اشارہ اسے آخرالزمان کے واقعات سے جوڑ کر اسے شر یا بدی کی قوت قرار دیتی ہے۔ مثال کے طور پر “ممی۱” (۲۷) اور “ممی۳” (۲۸)مصری اور چینی اور فلم “ہیل بوائے” (۲۹) میں جرمن باشندے شر کی قوت ہیں؛ اور مختلف ممالک اور اقوام اور تہذیبوں کو اپنی فلموں کا موضوع بنانے کا ایک مقصد دنیا والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا اور لوگوں کی تنوع پسندی کا جواب دینا بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: میلاد پورعسکر
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ فصلنامه سیاحت غرب، ارتباطات و رسانه‌ها: قدرت مالکیت رسانه‌ها، مرداد۱۳۸۵، شماره ۳۷، ص۴۷-۳۴٫۔
۲۔ گابلر، نیل، (Neal Gabler) امپراتوری‌هالیوود،(An Empire of Their Own) ترجمه: الهام شوشتری زاده، چاپ اول:۱۳۹۰، تهران، سایان.
۳۔ Thomas Alva Edison
۴۔ Universal Pictures
۵۔ Paramount Pictures
۶۔Warner Brothers
۷۔ News Corporation
۸۔ ۲۱st Century Fox
۹۔ فصلنامه راهبرد، ارتباط هویتی میانیهود و صهیونیسم، پاییز۸۵، شماره ۴۱(ISC)، ص۳۷۵-۴۱۲٫۔
۱۰۔http://jscenter.ir/jews-and-the-media/jews-and-hollywood/5886
۱۱۔ Holocaust
۱۲۔ Chicken Run
۱۳۔https://mouood.org/component/k2/item/630
http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=20152.
۱۴۔ End of the world
۱۵۔http://old.aviny.com/occasion/jang-narm/masihyat/sayhonisti2.aspx.
دین در سینمای شرق و غرب ، محمد حسین فرج نژاد، محمد سعید قشقایی، چاپ اول ۱۳۹۶، قم، اداره کل پژوهش‌های رسانه ای، ص۱۷۷٫۔
۱۶۔ The Matrix
۱۷۔ Zion
۱۸۔ Kabbalah
۱۹۔ The Omen
۲۰۔ The Exorcist
۲۱۔ Harry Potter
۲۲۔ Lord Voldemort
۲۳- دین در سینمای شرق و غرب، ص۱۷۸٫
۲۴- فصلنامه سیاحت غرب، اسلام هراسی: چگونگی گنجاندن تعصب اسلام ستیزانه در جریان غالب آمریکا، بهمن۹۱، سال دهم، شماره۱۱۴، ص۶۶-۴۰٫۔
۲۵۔ Wishmaster
۲۶۔ World War Z
۲۷۔ The Mummy (1999)
۲۸۔ The Mummy: Tomb of the Dragon Emperor
۲۹۔ Hellboy

کاربرد کامپوزیت در صنعت خودرو(پاورپوینت)
بازدید : 852
چهارشنبه 30 ارديبهشت 1399 زمان : 9:23

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سائبر اسپیس کے ماہر انجنیئر روح اللہ مؤمن نسب، جو عرصہ دراز سے ایرانی ٹی وی چینلوں اور مختلف قسم کے اجتماعات میں اسی حوالے سے کردار ادا کرتے رہے ہیں، “پاک انٹرنیٹ تک پہنچنے کے طریقہ کار” جیسے موضوعات کے موضوع پر خطابات کرتے رہے ہیں، اور اس شعبے میں اہم کورسز بھی کرواتے رہے ہیں۔
ذیل میں انجنیئر روح اللہ مؤمن نسب کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کا مکالمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: سائبر اسپیس پر دشمن شناسی کی اہمیت کیا ہے اور اس شعبے میں دشمن کا کیونکر مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟
– ابتداء میں مجھے آپ کے صہیونیت شناسی کے عنوان سے منعقدہ کورس کے بارے میں کچھ کہنے دیجئے۔ رہبر معظم نے بارہا فرمایا ہے کہ اس طرح کے کورسوں کا انعقاد کیا جانا چاہئے، کیونکہ دشمن نے اس سلسلے میں بہت ساری سرگرمیاں دکھائی ہیں اور وہ ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ایسی کامیابی حاصل کرسکا ہے جن کے بارے میں وہ سوچ تک نہیں سکتا تھا، وہ آکر ہمارے ممالک میں بہت بڑے بڑے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوا ہے؛ آج ہمارے ممالک ایک لحاظ سے مقبوضہ ممالک ہیں کیونکہ ہمارے ملکوں کے تمام افراد کے پاس انٹرنیٹ بھی ہے اور اسمارٹ فون بھی۔
ماضی میں رابطوں کے لئے ہمیں بہت سارے وسائل کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آج ہم ایسی فضا میں کام کررہے ہیں جس کا تعلق یہودی ریاست سے ہے۔ یعنی یہ منصوبہ بندی اسرائیلیوں کی ہے اور آپ کو نہیں معلوم کہ ہم کن کن چیزوں سے ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک وغیرہ وغیرہ کے ذریعے ہم چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، اسرائیل کی جیبوں کو بھر رہے ہیں۔
آج حالات بدل چکے ہیں، یعنی کسی وقت سامنے جاکر دشمن سے لڑتے تھے لیکن آج ہم دشمن کے دامن میں ہی جنگ لڑ رہے ہیں اور اگر کچھ طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیں تو Delete بٹن کا شکار ہوکر حذف ہوجاتے ہیں۔ بہرحال دشمن شناسی بہت واجب موضوع ہے۔
دشمن تیرہویں یہودی پروٹوکول میں کہتا ہے کہ “تم جاکر ایک یہودی حاخام (رابی) کی بات کو مسلم دینی علماء کی زبان پر ڈال دو، کیونکہ کوئی بھی یہودی حاخام کی بات کو قبول نہیں کرتا لیکن اپنے علما کی بات سنتے اور مانتے ہیں”؛ وہ اپنی دشمنانہ پالیسیوں کو اس انداز سے نافذ کرتا ہے اور اپنی دشمنی کا اس ذریعے سے ظاہر کرتا ہے، تا کہ اپنی بات کو علماء کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح مسلم معاشرے میں فکری دراندازی کرے۔
میں نے ایرانی ساختہ مصنوعات کا بہت خوبصورت اور متاثرکن پوسٹر دیکھا لیکن اس کے سائبر اسپیس کا پتہ یا برقی پتہ بیرونی پیغام رسانوں پر مشتمل تھا، اور یہ تمام ممالک میں رائج ایک بڑا تضاد ہے؛ اور ہم گویا ایک جاسوس کا کردار ادا کررہے ہیں جو نہ صرف اس جاسوسی کے بدلے کوئی اجرت نہیں لیتے کچھ رقم خرچ بھی کرتے ہیں۔

خیبر: ہمیں اس وقت کس چیز کے بارے میں فکرمند ہونا چاہئے اور ہم کس قسم کے استعمار کا سامنا کررہے ہیں؟
ـ ہم آج جدید استعمار کے دور سے گذر رہے ہیں۔ جس کو آیت اللہ حائری شیرازی (رہ) نے “فکری استعمار” کا نام دیا، آج بےزبانی کی زبان میں ہم سے کہہ رہے ہیں کہ “آپ کو مزید سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم آپ کی جگہ سوچتے ہیں”۔ ہم نے کسی سے بھی سوشل میڈیا کی درخواست نہیں کی لیکن انھوں نے بڑی آسانی سے اسے ہمارے لئے فراہم کیا۔ ہم میں سے جو لوگ کچھ کچھ ذمہ داری محسوس کرتے ہیں وہ روزانہ کچھ باتیں کہیں سے اٹھا کر کہیں نشر کردیتے ہیں اور ہماری تخلیقی سرگرمیوں کی انتہا صرف اتنی ہے کہ کچھ بیرونی سافٹ ویئرز کو لے کر اسی شکل میں، تیار کریں اور یہ وہی پیچیدہ جنگ ہے جس کا عام جنگوں سے اختلاف اسلحے کے حوالے سے ہے۔ آج کا اسلحہ مختلف ہے۔
اس پیچیدہ لڑائی کا پیچیدہ ترین پہلو یہ ہے کہ ہم دشمن کی زمین میں بیٹھ کر لڑرہے ہیں۔ ہمارے اچھے اور نیک نوجوان جانے بوجھے بغیر اپنے موقف کے ذریعے اپنے اوپر ہی حملہ کرتے ہیں۔ رہبر معظم کی رائے یہ ہے کہ “دشمن کی زمین پر نہیں کھیلنا چاہئے کیونکہ اس میں ہار اور جیت دونوں کا فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے”؛ جیسے کہ ہم کھیل کے میدان میں یہودی ریاست کے کھلاڑیوں سے نہیں کھیلتے، کیونکہ کھیلنے کی صورت میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم جیتیں یا ہاریں، اہم بات یہ ہے کہ گویا ہم‌‌ان‌کے ساتھ کھیل کر یہودی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے۔
ہماری جنگ کی روش کچھ یوں ہے کہ جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں اس کی طرف لپکتے ہیں اور مشکل کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ باقی محاذ خالی رہتا ہے اور دوسرے نقاط سے نقصان اٹھاتے ہیں؛ جس طرح کہ یہودی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ۲۰۱۳ میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ “اگر ایران کے عوام آزاد ہوتے تو جینز کے پتلون پہنتے!” جبکہ ہمارے ذرائع ابلاغ کے پاس بی بی سے کہیں زیادہ افرادی قوت ہے لیکن وہ ہمیں اس طرح کے قصوں سے چیلنج کرتے ہیں اور یہ در حقیقت کاروائی کی روش میں وہ خلا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔
خیبر: اس بات کا سبب کیا ہے کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت بھی ہے اور تخلیقی صلاحیت بھی ہے لیکن پھر بھی کوئی کام انجام نہیں پاتا؟
– ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں اور جان لیں کہ کس وقت کونسا کام کرنا چاہئے۔
خیبر: کیا ہم کوئی ہمآہنگ تھنک ٹینک قائم کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو اس قسم کی سرگرمیوں کو منظم کرے اور حملے اور دفاع کے لئے منصوبہ بندی کرے؟
– رہبر معظم نے نوجوانوں سے فرمایا کہ “اپنے اختیار سے اٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرو اور خود جاکر منصوبہ بندی کرو”، اس وقت اس لحاظ سے تقریبا تمام اسلامی‌ممالک کا کمانڈ روم خلل کا شکار ہے، اسی بنا پر بہت سے مقامات پر مختلف قسم کے کام ہورہے ہیں۔ دشمن ہمارے اگلے قدم کو نہیں بھانپ سکتا اور یوں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جو کام دشمن کرسکتا ہے یہ ہے کہ وہ نیٹ ورک بنا لیتا ہے اور ایک ایسی فکر کو اندر لے کر آتا ہے جو کہ بہت ہی زیادہ کامیاب ہے۔
وہ ہماری ترجیحات بدلنے کی کوشش کرتا ہے، ہر روز ملکی ساختہ مصنوعات کے استعمال کے رجحان کے مقابلے میں ایک نئی ترجیح لاتا ہے تا کہ اندرونی مصنوعات کی عوامی‌حمایت کے لئے متعینہ ایک سال کا عرصہ گذر جائے۔ دشمن نے ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے دوران، ہر بار نئے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ عراق نے ایران پر حملہ کیا تو ہمارے دشمن “اسرائیل” نے افواہ اڑا دی کہ “ایران اسرائیل کا دوست ہے”۔
ایران نے بھی اپنے کچھ سپاہی اسرائیل کے خلاف براہ راست لڑائی کے لئے شام بھجوا دیئے اور امام خمینی(رہ) نے اس حوالے سے‌‌ان‌سے فرمایا: “قدس کا راستہ کربلا سے گذرتا ہے”؛ یعنی وہ زمانہ یہودی ریاست کے خلاف براہ راست لڑائی کا زمانہ نہیں تھا اور ہمیں چاہئے تھا کہ پہلا قدم زیادہ مضبوطی کے ساتھ اٹھائیں۔

“یہودی آخر الزمان” اور معاصر سینما
بازدید : 655
چهارشنبه 30 ارديبهشت 1399 زمان : 9:23

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: لاورنیس ڈیوڈسان[۱]، نے ۱۹۴۵ ء میں امریکہ کے چھٹے بڑی آبادی والے شہر فیلاڈالفیا[۲] میں، ایک سیکولر یہودی گھرانے کے یہاں آنکھیں کھولیں، لاورنیس ڈیوڈسان نے روٹگیرز یونیورسٹی [۳] سے تاریخ کے موضوع میں بے اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۶۷ء میں لاورنیس کو جارج ٹاون یونیورسٹی[۴] میں وہاں کے استاد کی حیثیت سے منظوری مل گئی اور بحثیت استاد انہیں قبول کر لیا گیا۔
ڈیوڈسان نے اپنے‌‌ان‌ایام کو یورپ میں جدید روشن خیالوں کی تاریخ کے سلسلہ سے مطالعہ میں بسر کیا اس دوران انکا ایک فلسطینی استاد سے کافی بحث و مباحثہ ہوتا رہا ۔
۱۹۷۰ء میں ڈیوڈسان نے امریکہ کو کینیڈا کی غرض سے ترک کر دیا اور یوں امریکہ سے رخت سفر باندھ کر وہ کینیڈا پہنچ گئے اور قیام کینیڈا ہی کے دوران انہوں نے جدید پورپ کی فکری تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔
ڈیوڈسان ۱۹۸۹ء کی دہائی میں ویسٹ چسٹر یونیورسٹی میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد کی حیثیت سے مصروف عمل ہو گئے ساتھ ہی تاریخ ِعلم اور جدید یورپ میں روشن خیالی کی تاریخ بھی تدریس کرنے لگے نیز اسی موضوع میں ریسرچ و تحقیق سے بھی جڑ گئے، ۲۰۱۳ ء مئی کے مہینے میں یورنیورسٹی کی خدمت سے سبکدوش اور رٹائرڈ ہوئے۔
ایک معاہدے و پیمان کے طرف ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے غیر قابل بھروسہ اور ناقابل یقین ہونے کے سلسلہ سے ڈیوڈ سان کا کہنا ہے: اس سلسلہ سے اسلامی‌جمہوریہ ایران کی مشرق وسطی اور علاقائی مسائل پر ہونے والی گفتگو منطقی اور حقیقت پر مبتنی گفتگو ہے [۵]۔
یمن کے سلسلہ میں ڈیوڈ سان کا ماننا ہے دوسری عالمی‌جنگ کی طرح آج بھی کچھ حکومتوں کی حماقت، مفاد پرستی و خود خواہی نے بین الاقوامی‌قوانین کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ یمن کچھ حکومتوں کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔[۶]
ڈیوڈ سان اسرائیل کی بین الاقوامی‌ثقافتی کمپین کے صدارتی بورڈ کے ایک رکن ہیں اور حامد داباشی[۷] ، ایلان پاپے[۸]، مائکل شیادہ[۹] ، دزموندٹوٹو[۱۰] جیسی ممتاز شخصیتوں کے ہمراہ عالمی‌صہیونیت اور انکے ظالمانہ افکار سے جنگ کر رہے ہیں [۱۱]
انکے بعض اہم آثار یہ ہیں :
The Alexian Brothers of Chicago: An Evolutionary Look at the Monastery and Modern Health Care
Islamic Fundamentalism
America’s Palestine: Popular and Official Perceptions from Balfour to Israeli Statehood
Foreign Policy, Inc: Privatizing America’s National Interest
Lawrence Davidson, and Tom Weiner. A Concise History of the Middle East
Cultural Genocide. New Brunswick
حواشی:
[۱] ۔ Lawrence Davidson
[۲] ۔ Philadelphia ، امریکہ کا ایک ایک ایسا شہرجو امریکہ کا سب سے پہلا پایتخت قرارپایا نیز امریکہ کا بنیادی دستور العمل بھی اسی شہر میں منظور کیا گیا ۔رجوع کریں : http://www.nps.gov/archive/inde/phila.htm
[۳] ۔ Rutgers University، امریکی ریاست نیوجرسی کی ایک معروف یونیورسٹی
[۴] ۔ Georgetown Universityواشنگٹن کی ایک کیتھولک نظریات کی حامل یونیورسٹی
https://middleeastpress.com/slideshow/. [5]
www.farsnews.com/news/13940219200165. [6]
Hamid Dabashi .[7]
[۸] ۔ Ilan Pappé
[۹] ۔ Michel Shehadeh
[۱۰] ۔ Desmond Tutu
[۱۱] ۔ www.usacbi.org/advisory-board/

ذرائع ابلاغ میں جاسوسوں کا کردار
بازدید : 868
يکشنبه 27 ارديبهشت 1399 زمان : 12:25

خیبر صہیون تحقیقای ویب گاہ: جس طرح کل علی کے گریہ کی آوازیں بلند تھیں آج بھی نخلستانوں سے بلک بلک کر علی کے رونے کی آواز سنی جا سکتی ہے جہاں علی جیسا یکتائے روزگار اپنے معبود کے سامنے فریاد کر رہا ہے ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار ….
آئیے اس مبارک مہینہ میں جہاں ہر طرف برکات کا نزول ہے کچھ‌‌ان‌اساسی اور بنیادی مسائل پر وقت نکال کر غور کرتے ہیں کہ علی کی تہنائی کا راز آخر کیا تھا ؟ قرآن آج کیوں تنہا ہے؟ علی اور قرآن کا رشتہ کیا ہے؟ علی اور قرآن دونوں ہی آج اپنے ہی ماننے والوں کے درمیان مظلوم کیوں ہیں؟ ہم علی اور قرآن کی تنہائی و مظلومیت کو دور کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ہماری اجتماعی زندگی میں قرآنی اصولوں اور سیرت علوی کا کتنا عمل دخل ہے؟ کیا ہم خود کو اور اپنے معاشرہ کو قرآن اور علی کا پابند بنا سکتے ہیں؟ کہیں یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کے لئے علی نے کہا تھا ” وانہ سیاتی علیکم بعدی زمان … و لیس عند اھل ذالک الزمان سلعة ابور من کتاب …. فقد نبذ الکتاب حملتہ و تناساہ حفظتہ ….
یاد رکھو! میرے بعد وہ زمانہ آنے والا ہے …جب اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی …حاملان کتاب، کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافطان قرآن قرآن کو بھلا دیں گے (۱)
قرآن اور علی کو سمجھنے کے لئے اس ماہ مبارک سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے جس مہینہ میں ایک طرف تو قرآن نازل ہوا تو دوسری طرف محافظ قرآن کے خون سے محراب مسجد رنگین ہو گئی، کیا قرآن صامت کا اس مہینہ میں نزول اور قرآن ناطق کا اسی مہینہ میں عروج‌‌ان‌دونوں کے غیر معمولی رابطہ کی طرف اشارہ نہیں ہے؟
کیا شبہائے قدر میں علی کا زخمی‌ہونا اور انہیں ایام میں علی کا شہید ہو جانا محض اتفاق ہے؟ امام موسی صدر نے بڑے دلنشین انداز میں اس بات پر یوں روشنی ڈالی ہے ” کیا شہادت امام علی کا شب قدر کے ساتھ تقارن محض اتفاق ہے یا پھر علی ہی اس امت کی قدر ہے؟ کیا علی اس امت کی اندھیری راتوں کے لئے وہ نور نہ تھے کہ جس کی روشنی میں امت کی تقدیر لکھی جائے؟… کیا علی وجہ بقائے امت نہ تھے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ حق تو یہ ہے کہ علی اور اس امت کی تقدیر لکھے جانے کے درمیان ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے دونوں کے درمیان ایک اٹوٹ رابطہ ہے میں اپنے‌‌ان‌بھائیوں سے جو اس شب میں اکھٹا ہوئے ہیں پوچھنا چاہتا ہوں بھائیو! یہ بتاؤ کہ قدر کیا ہے ؟ ….
اگر ہم غور کریں تو اس نتیجہ پر پہچیں گے کہ شب قدر کا روزہ سے گہرا تعلق ہے روزہ کا مطلب ہے تزکیہ نفس روزہ یعنی روز مرہ کی جکڑی ہوئی زندگی سے آزادی ،
… انسان روزے کے ذریعہ خود کو نئے سرے سے سنوارتا ہے اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے ”قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہا وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاہا ”۔بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے(٢)
اس آیت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ تزکیہ اور تہذیب نفس انسانی کی کامیابی کا راستہ ہے، ہم اس مبارک مہینہ میں روزہ کے ذریعہ اپنے آپ پر قابو پا سکتے ہیں اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں رقم کر سکتے ہیں اپنے آپ کو غلامی‌کی زنجیروں سے آزاد کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ علی اس امت کی تقدیر ہیں ہمارے اس دعوے کی دلیل انہیں مبارک راتوں میں علی کی دردناک شہادت ہے انہیں راتوں میں سجدے کی حالت میں علی کوشہید کر دیا گیا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو علی اور شب قدر سے جڑی ہوئی ہے اور ہمیں سکھاتی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم علی سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، اور یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اسرائیل پر فتح حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری باتیں ہماری فکریں‌‌ان‌راتوں میں ایک تحریک کا سبب بن سکیں ، معروف مقولہ ہے کہ ہزار کلومیٹر کی مسافت کو طے کرنے کا آغاز پہلے قدم سے ہوتا ہے، اب ہمیں اس شب میں پہلا قدم اٹھانا ہے ہم نتائج سے ناامید نہیں ہیں اس لئے کہ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے کہ خدا بہت کریم ہے اگر ہم اس کی راہ میں ایک قدم بھی اٹھائیں گے تو وہ ہماری دس گنا زیادہ مدد کرے گا (۳) ”مَنْ جاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثالِہا ” جو نیک عمل انجام دے گا اسے نیکی کا صلہ دس برابر دیا جائے گا ” (٤)
اور پھر ” وَ لَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ ِانَّ اللَّہَ لَقَوِیّ عَزیز
الَّذینَ ِانْ مَکَّنَّاھمْ فِی الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّکاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَھوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلَّہِ عاقِبَةُ الْأُمُورِ
اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحبِ قوت بھی ہے اور صاحبِ عزت بھی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکوِۃ ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے ”(٥)
مذکورہ بالا جملے امام موسی صدر کی شبہائے قدر میں کی گئی چار دہائیوں پرانی تقریر سے ماخوذ تھے جس میں انہوں نے جو کچھ اپنی قوم سے کہا وہ کر دکھایا جو وعدہ کیا وہ پورا بھی کیا اور شب ہائے قدر میں اپنی دعاؤں اور سیرت علی سے درس لیتے ہوئے‌‌ان‌کی امت نے حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیل کو جولان کی پہاڑیوں سے کھدیڑ ڈالا اور یہ ثابت کر دیا جس علی نے کل خیبر فتح کر کے یہودیوں کو بتایا تھا جہاں واقعی قرآنی تعلیمات ہوتی ہیں وہاں قلعہ خیبر دو انگلیوں پر نظر آتا ہے اسی طرح آج علی کے ماننے والوں نے علی کی سیرت اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حقیقی وارث قرآن علی ہی ہے سیرت علی ہی حققیت میں ترجمان قرآن ہے نہ علی کو قرآن سے الک کیا جا سکتا ہے نہ قرآن کو علی سے ۔
حوالے و حواشی :
١۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٤٧
٢۔شمس ١٠
٣۔ادیان در خدمت انسان ، جستار ہای دربارہ دین و مسائل جہان معاصر ،امام موسی صدر ٣٣٥
٤۔حج ٤١٤٠
٥۔ انعام ١٦٠

گزارش همسفران عشق در تاریخ ۹۹/۲/۲۰ با دستور جلسه سی دی فلز وجودی و انرژی
برچسب ها اور قرآن ,
بازدید : 563
يکشنبه 27 ارديبهشت 1399 زمان : 12:25

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: تاریخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں بھی بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا تھا البتہ اس میں یہودیوں کا کردار زیادہ واضح نظر آتا ہے اسی موضوع کے حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے حجۃ الاسلام ڈاکٹر سید محمد مہدی حسین پور سے گفتگو کی ہے:
خیبر: کیا صدر اسلام میں بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال ہوتا تھا؟ اور اس کے استعمال میں یہودیوں کا کیا کردار تھا؟
۔ ابتداء میں ہی یہ بات عرض کر دوں کہ تاریخ میں کچھ ایسے یہودی نظر آتے ہیں جو اپنے حریفوں کے قتل کے لیے کچھ حربے اپناتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم انہیں انبیاء کے قتل کے ماہرین قرار دیتا ہے۔ لیکن قتل کا طریقہ کیا تھا وہ مختلف حالات و شرائط میں مختلف ہوتا تھا۔
کبھی کبھار یہ قاتلانہ حملہ جنگی ہتھیاروں مثلا تلوار وغیرہ کے ذریعے ہوتا تھا۔ کبھی بائیولوجیکل ہتھیاروں کے ذریعے حملہ کیا جاتا تھا۔ یعنی اپنے دشمن کو زہریلے مادے کے ذریعے مٹایا جاتا تھا۔ یہ چیز اس قدر اہم تھی کہ رسول خدا(ص) کے دور میں بعض لوگوں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اس لیے مسلمان نہیں ہو رہے ہیں کہ انہیں یہودیوں کی جانب سے قاتلانہ حملے کا خوف ہے۔
تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ یمن کا ایک یہودی مدینے آیا اور اس نے اسلام قبول کیا، جب اپنے وطن واپس لوٹ کر گیا تو قبیلے کے سردار کے حکم سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے گئے۔ (۱) بہرحال کسی کو صفحہ ہستی سے مٹانا یہودیوں کے نزدیک معمولی کام تھا۔ یہاں تک کہ رسول خدا (ص) سے روایت نقل ہوئی ہے:اگر دو یہودی ایک مسلمان کے ساتھ کہیں تنہائی میں نظر آئیں تو یقینا وہ اس مسلمان کے قتل کا منصوبہ بنائیں گے‘‘۔
امیر المومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’مسلمان چھے طرح کے لوگوں سے امان میں نہیں ہیں‌‌ان‌میں سے ایک یہودی ہیں‘‘۔
بہرحال تاریخ اسلام میں یہودیوں نے اپنے دشمنوں کو مٹانے کے لیے دونوں حربوں یعنی جنگی ہتھیاروں اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعال کیا ہے اور دونوں کے ذریعے کبھی انفرادی قتل بھی کیا ہے اور کبھی اجتماعی قتل عام بھی۔
صدر اسلام میں یہودیوں کی جانب سے اجتماعی قتل عام معمولا زہر کے ذریعے انجام پاتا تھا۔ تاریخ میں اس دعوے پر دستاویزات موجود ہیں۔ بعض افراد نے اس دور میں زہر کے ذریعے قتل عام کو بائیولوجیکل وار قرار دیا ہے۔
جیسا کہ بعض مورخین قائل ہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) کی شہادت ایک یہودی عورت ’زینب بن حارث‘ کے زہر سے انجام پائی جو مرحب کی بہن تھی اس نے گوسفند کے گوشت میں زہر ملا کر پیغمبر اکرم کو دیا اور یہ زہر جلدی اثر کرنے والا نہیں تھا بلکہ اس نے دھیرے دھیرے اثر کیا اور اسی کی وجہ سے تین سال کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ بہت سارے شیعہ اور سنی مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
ہم نے ’’دشمن شدید‘‘ کتاب میں مختلف دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہودی امیر شام اور بطور کلی بنی امیہ کے ذریعے اسلام میں گہرا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور بنی امیہ کے تمام حکمران یہودیوں کے مہرے تھے۔ اسی وجہ سے ان کی جانب سے اکثر قاتلانہ حملے بائیولوجیکل ہتھیاروں سے انجام پاتے تھے جو در حقیقت یہودیوں کا حربہ تھا۔
امیر شام جب بھی اپنے دشمن کو مٹانے میں ناکام ہوتا تھا تو اپنے دوست ابن اثال جو یہودی تھا کو زہر تیار کرنے کا حکم دیتا تھا اور اس زہر کے ذریعے اپنے حریفوں کا صفایا کرتا تھا۔

علی(ع) اور قرآن تنہا کیوں؟
بازدید : 1027
يکشنبه 27 ارديبهشت 1399 زمان : 12:25

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن گزرگاہ تاریخ بنی نوع بشر پر جلتا ہوا وہ چراغ جو انسانی زندگی کے تمام پیچ و خم کو قابل دید بنا کر انسان کے ادنی یا اعلی ٰہونے میں مشعل راہ ہے ۔ علم و حکمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا وہ بحر ذخار کہ علم و دانش کے شناور اس کی گہرائی میں جتنا بھی اترتے چلے جائیں‌‌ان‌کا دامن معرفت کے بیش بہا گوہروں سے اتنا ہی بھرتا چلا جائے ۔

ائمہ طاہرین اور مسلمانوں کے بائیولوجیکل قتل میں یہودیوں کا کردار/ حسین پور کے ساتھ گفتگو
بازدید : 724
دوشنبه 21 ارديبهشت 1399 زمان : 14:24

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، تشہیر و اشتہار نیز جنسیات کے لئے عورتوں کا آلاتی استعمال مغربی سیاستدان طبقے کی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی بنا پر جاسوسی اداروں میں جاسوسی کے لئے بھی عورت کے استعمال کا رجحان بڑھ گیا۔ خاتون جاسوسائیں جنہیں یا تو وہ ابابیل کہیں گے یا چڑیا۔ یہ ادارے مختلف سیاستدانوں اور عسکری اور سیکورٹی اداروں کے سربراہوں کی کمزوریاں تلاش کرتے ہیں جو اگر شہوت پرست ہوں تو‌‌ان‌کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
مشہورترین یا پھر بدنام ترین جاسوساؤں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو‌‌ان‌کی جڑیں یہودی خاندانوں میں پیوست ملتی ہیں جن کی پرورش بھی یہودی نسب کے خاندانوں میں ہوئی ہوتی ہے۔ جاسوساؤں کی تربیت اور‌‌ان‌کا استعمال آج دنیا کے اکثر جاسوسی اداروں کا خفیہ ہتھیار بن چکا ہے۔
اینا واسیلییونا کوشچینکو (Anna Vasil’yevna Kushchyenko) یا اینا چیپمین (Anna Chapman) سنہ ۱۹۸۲ کو روس میں پیدا ہوئی۔ شادی کے بعد برطانوی شہریت حاصل کی۔ نیویارک میں مقیم ہوئی اور ۲۰۱۰ کو ۹ دوسرے افراد کے ہمراہ روس کے لئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوئی اور روس اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں روس واپس بھجوا دی گئی۔ اینا چپمین ماڈلنگ اور تشہیر کے شعبے سے منسلک ہوکر مختلف اہم شخصیات کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرکے روس کے خارجی جاسوسی کے ادارے ایس وی آر کے لئے جاسوسی کرتی تھی۔
زیادہ تر برطانوی اور امریکی تاجر اس جاسوسہ کے نشانے پر ہوتے تھے جنہیں وہ‌‌ان‌ہی افراد کے مخصوص نائٹ کلبوں میں شکار کرتی تھی۔ اس کا نشانہ بننے والوں میں مشہور برطانوی تاجر فلپ گرین (Sir Philip Nigel Ross Green) اور ایرانی نژاد (عیسائی) برطانوی تاجر ونسنٹ چنگیز (Vincent Tchenguiz) سمیت مختلف امریکی اور برطانوی تاجروں سے ناجائز تعلق برقرار کرکے‌‌ان‌سے خفیہ معلومات حاصل کیں اور برطانیہ کے بارکلیز بینک (Barclays Investment Bank) کے امریکی شعبے سے بھی خفیہ معلومات حاصل کرکے روس بھجواتی رہی۔ اسے روس واپس لایا گیا تو ویلادیمیر پیوٹن نے اسے خراج تحسین پیش کیا۔ وہ اپنے حسن و جمال کے بدولت امریکہ کے اعلی حکام اور بالخصوص اوباما انتظامیہ میں اچھا خاصا نفوذ رکھتی تھی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے اہم معلومات روسی حکومت کو فراہم کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آیة الله بهجت برای هر امری صلوات را پیشنهاد میکردند.

تعداد صفحات : 3

آمار سایت
  • کل مطالب : 37
  • کل نظرات : 0
  • افراد آنلاین : 3
  • تعداد اعضا : 0
  • بازدید امروز : 13
  • بازدید کننده امروز : 11
  • باردید دیروز : 61
  • بازدید کننده دیروز : 54
  • گوگل امروز : 0
  • گوگل دیروز : 0
  • بازدید هفته : 344
  • بازدید ماه : 1853
  • بازدید سال : 23483
  • بازدید کلی : 54239
  • کدهای اختصاصی