خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں کی صہیونی بنیاد پرستی (The Jewishes, Zionist fundamentalism) اسرائیل کے ماہر عمرانیات و مردم شناس گائڈن ارن [۱]کے قلم سے سامنے آنے والی کتاب ہے، اس مصنف کے دیگر آثار میں، اسرائیلی سرزمین: سیاست و دین کے درمیان [۲]، صلح کی قیمت :یہودی نشین آبادیوں کو ختم کرنا، صلح کے قیام و معاملات کو رفع دفع کرنے میں صلح[۳] وغیرہ جیسے آثار کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
گائڈن ارن نے اس کتاب اور اپنے دیگر مقالات کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے اسرائیل میں موجود مختلف تحریکوں کے سربراہوں سے مختلف انٹرویو لیے ہیں، یہودیوں کی صہیونی بنیاد پرستی ایک ایسی کتاب ہے جو اسرائیل میں موجود مختلف تحریکوں کے تعارف کے پیش نظر لکھی گئی ہے اور خاص طور پر اسرائیل کی قدامت پرست تحریک گوش امونیم Gush Emunim מִפְלָגָה דָּתִית לְאֻומִּית، پر اس کتاب میں فوکس کیا گیا ہے۔
گوش امونیم [۴]ایک عبری عبارت ہے جو گروہ مومنین کے معنی میں اور دینی پس منظر کی حامل تحریک کے سلسلہ سے استعمال ہوتی ہے، یہ کتاب امریکی عوام کی دسترس میں قرار پانے والی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس سلسلہ سے لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے جسے ایک ممتاز محقق نے سپرد قرطاس کیا ہے، لہذا امریکی رائے عامہ، یونیورسٹیز، حتی امریکی پالیسی سازوں اور امریکہ کے سلسلہ سے فیصلہ کرنے کا اختیار رکھنے والوں تک کو متاثر کر نے کا سبب ہوگی۔ اور اس لحاظ سے کہ اس کے مصنف اسرائیل میں بنیاد پرستوں کے ساتھ خود ہی اٹھے بیٹھے ہیں اور سالہا سال انکے ساتھ زندگی جینے کا تجربہ رکھتے ہیں، ایک خاص اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ ایک ثبوت اور دستاویز کی حیثت رکھتی ہے۔
اس کتاب میں گوش امونیم کی تحریک کے آغاز سے اسکے رشد تک کے مرحلہ کو بیان کیا گیا ہے اس کتاب کے مصنف نے کتاب کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے مقبوضہ فلسطین کی سر زمینوں میں رہائش کی سختیوں کو برداشت کیا ہے اور اس تحریک کے فعال اراکین و اعضاء جنہیں گروہ مومنین کہا جاتا ہے کے ساتھ ، پہاڑوں اور بیابانوں کو پیروں تلے روندا ہے اور ہر چیز کو نزدیک سے دیکھنے کے لئے کبھی ڈرائور کا کردار نبھایا ہے تو کبھی اسلحوں کو کاندھوں پر ڈھونے والے حمال تو کبھی اس تحریک کے سربراہوں کے باڈی گارڈ کا رول نبھایا ہے اور گوش امونیم کی پنہاں و آشکار کارکردگیوں کو ایک محرم راز و شاہد کی حیثیت لمس کرنے کے ساتھ اس تحریک کی رسمیو غیر رسمیپنہاں وآشکار فعالیتوں کے گواہ کے طور پر بہت کچھ قریب سے دیکھا ہے[۵]
ان لوگوں کے لئے اس کتاب کو پڑھنا بہت ہی مفید ہوگا جو صہیونیت کی شناخت کے سلسلہ سے شوق ورغبت رکھتے ہیں، صہیونی سماج کو پہچاننا چاہتے ہیں، افراطی یہودیوں کے سلسلہ سے معلومات حاصل کرنے میں دلچسبی رکھتے ہیں اور مجموعی طور پرانسبھی حضرات کے لیے اس کتاب کو تجویز کیا جا سکتا ہے جو موجودہ اسرائیل کے بننے اور اس ملک کی تعمیر کے پس منظرمیں موجود فکر اور فلسطین پر حملوں اور فلسطینی عوام کے قتل عام کے پیچھے کی فکر کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔
حواشی
[۱] Gideon Aran
[۲] اورشلیم: موسسه مطالعاتی اسرائیلی اورشلیم،۱۹۸۵
[۳] www.gideonaran.com/category/publications
[۴] Gush Emunim מִפְלָגָה דָּתִית לְאֻומִּית، ایک سخت گیر نظریات کی حامل قوم پرست یہودی ارتھوڈکس پارٹی ، مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ۔Ehud Sprinzak, ‘From Messianic Pioneering to Vigilante Terrorism: The Case of the Gush Emunim Underground,’ in David C. Rapoport(ed.),Inside Terrorist Organizations,Routledge 2013 pp. 194-215, p. 194
[۵] http://teeh.ir/fa/news-details/2655/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ماہر الحمود کا تعلق لبنان کے علمائے اہل سنت سے ہے، آپ ’بین الاقوامییونین برائے علمائے مزاحمت‘ کے سربراہ ہیں۔ ماہر الحمود اگر چہ سنی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن علاقائی اور عالمیمسائل کے نسبتانکی نگاہ حزب اللہ اور اسلامیجمہوریہ ایران کی نگاہ سے بہت قریب ہے۔ مثال کے طور پر ماہر الحمود نے لبنان میں ’امام خمینی (رہ) اور مسئلہ فلسطین‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں امام خمینی (رہ) کے مختلف سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا: امام کا موقفانکے ایمان سے وجود میں آیا نہ زودگزر سیاست سے، امام اپنے موقف میں مکمل صداقت پر قائم تھے۔ یہی چیز لوگوں میںانکی مقبولیت اور حتیٰ آپ کی حیات کی بعد بھی آپ کے راستے میں پائیداری اور ثابت قدمیکا باعث بنی۔ ۱ شیخ حمود کی یہ باتیں فلسطین کے مسئلے میں امام خمینی (رہ) اور ایران کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی کی واضح نشانی ہیں۔
شیخ حمود مختلف مناستبوں اور کانفرنسوں جیسے فلسطینی علمائے مزاحمت اجلاس، حج کے موسم، یا بالفور اعلانیہ کی برسی وغیرہ کے موقعوں پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کھل کر گفتگو کرتے یا بیانہ جاری کرتے ہیں اور عالم اسلام کو اسرائیل کے جرائم سے خبردار کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، مسئلہ فلسطین اور صہیونی ریاستانکی ترجیحات میں شامل ہے۔
آپ عالمییوم القدس کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ عالمییوم القدس کا نعرہ جو اسلامیجمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی (رہ) نے بلند کیا تھا دیگر تمام سیاسی نعروں سے مختلف ہے اس شعار اور نعرے نے بین الاقوامیسازشوں اور عرب دباؤ کے مقابلے میں تا حال پائیدادی کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۲
شیخ اس موقع پر نکالی جانے والی ریلیوں میں لوگوں کے کم شرکت کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: یوم قدس کو موجودہ حالت سے بہتر، وسیع تر اور عالمگیر ہونا چاہیے۔ لیکن بہر حال عالمیبحران کے سایہ میں اسی حد تک بھی اچھا ہے۔ پروپیگنڈہ بہت بڑا ہے اور افسوس کے ساتھ امت مسلمہ کا بدن کمزور ہو چکا ہے۔ امت اسلامیہ سازشوں کو باآسانی قبول کرتی ہے اور آسانی سے انہیں عملی جامہ پہناتی ہے۔‘‘۳
ماہر الحمود کی نگاہ میں کفر کے محاذ کی کامیابی بعض مسلمانوں کی خیانت کی وجہ سے ہوتی رہی ہے۔ وہ اس بارے اور امریکی سفارتخانے کی قدس منتقلی کے بارے میں قائل ہیں: ’’بعض عربوں نے امریکہ کا ساتھ دیا کہ وہ قدس شریف کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت اعلان کرے، اس لیے کہ اسرائیلی گزشتہ ستر سال کے دوران کبھی کسی منصوبے میں کامیاب نہیں ہوئے مگر یہ کہ کسی عربی یا اسلامیملک نےانکا ساتھ دیا‘‘۔
اس ظلم مخالف اور حق جو عالم دین کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل اتحاد مسلمین ہے۔انکے بقول: ’’مسئلہ فلسطین اس سے کہیں بڑا ہے کہ اس کا بوجھ ایک قوم، ایک گروہ یا کوئی ایک محاذ تحمل کر سکے مسئلہ فلسطین امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے دنیا کے حریت پسندوں کا مسئلہ ہے لہذاانسب کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ اپنے مشترکہ مقصد کو حاصل کر سکیں۔‘‘ ۴
حواشی
۱۔ https://icro.ir/index.aspx?pageid=39368&newsview=652659
۲- https://parstoday.com/fa/middle_east-i137334
۳- https://tn.ai/1116860
۴- https://fa.shafaqna.com/news/402134/
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ العظمیٰ علوی گرگانی عالم تشیع کے بزرگ عالم دین اورانمراجع تقلید میں سے ایک ہیں جنہیں آیت اللہ بروجردی (رہ)، امام خمینی(رہ) اور آیت اللہ خوئی (رہ) کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، اپنے اساتید اور دیگر بزرگ علماء کی طرح آپ بھی ہمیشہ عالم اسلام کے مسائل پر خاص توجہ دیتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کےاناہم مسائل میں سے ایک ہے جس نے آج تک تمام امت مسلمہ خصوصاانافراد کا دل دکھایا ہے جو ملت فلسطین کے تئیں تھوڑا بہت بھی احساس رکھتے ہیں۔ شیعہ علماء کرام توانافراد میں سے ہیں جو ہمیشہ عالم اسلام کی مشکلات کو محسوس کرتے اورانکی چارہ جوئی کے لیے جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ آیت اللہ گرگانی نے بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ہمیشہ جد وجہد کی اور مختلف اوقات میں مختلف مناسبتوں سے اس موضوع پر بیانات جاری کئے:
مثال کے طور پر آپ نے یوم القدس کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا: ماہ مبارک کا آخری جمعہ ہر سال امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اس الہی آواز کو زندہ کرتا ہے جس پر لبیک کہتے ہوئے مظلومین عالم خصوصا ملت فلسطین کی حمایت میں قدم اٹھایا جا سکتا ہے وہ سرزمین فلسطین جو صہیونیوں کے ہاتھوں غصب ہوئی، وہ سرزمین جو مسلمانوں کی ایک مقدس ترین جگہ رہی ہے۔ ۱
اس مرجع تقلید نے صہیونیت مخالف بین الاقوامییوتھ یونین کے ساتھ ہوئی ایک ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے حل اور اسرائیلیوں سے نجات کا راستہ اتحاد بین المسلمین قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’اگر تمام امت مسلمہ یک مشت ہو جائے تو اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف کچھ کر نہیں پائے گا بلکہ اس کی نابودی بھی قریب ہو جائے گی۔ لیکن اگر مسلمان آپس میں پاش پاش رہیں گے اور ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں بٹائیں گے تو دشمن طاقتور ہو جائے گا۔ اسلامیقوموں کا اتحاد دشمن کی کمزوری اور اس کے ظلم کے خاتمے کا باعث بنے گا‘‘۔ ۲
یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ آیت اللہ علوی گرگانی عالم اسلام کے ساتھ اسرائیل اور صہیونیزم کی دشمنی کو مسئلہ فلسطین میں منحصر نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہانکی نظر میں اسرائیلی کمپنیاں مسلمان ملکوں میں غیر سالم غذاؤوں کے ذریعے مسلمانوں کو مٹانے کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ آپ ایران میں استعمال ہونے والی غیر سالم غذاؤوں کے بارے میں کہتے ہیں:
’’پچاس سال سے ایران میں یہ سلسلہ چل رہا ہے انقلاب سے پہلے ایران میں غیر سالم خوراک کے لیے دشمنوں نے منصوبے بنائے تھے اور انہیں اجرا کیا تھا۔ اس دور میں بھی شہنشاہی حکومت علماء کو کہتی تھی تم لوگ کیوں اس بارے میں بولتے ہو اور کیوں اتنا سخت لیتے ہو؟ یہ کامانکے تجارتی مفادات کا حصہ تھا جس کے پیچھے اسرائیل تھا اسرائیلی سرمایہ کاروں نے ایران میں اس چیز کا بیج بویا تھا۔ اب بھیانمسائل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اور یہ مشکلات وہیں سے جنم لیتی ہیں۔ ۳
حواشی
1 – https://www.mehrnews.com/news/4314866
2- http://qodsna.com/fa/321720
3- https://www.mashreghnews.ir/news/635248
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عام طور پر جب لفظ “جاسوس” سامنے آتا ہے تو ذہنوں میں ایک خوفناک یا نقاب پوش مرد ابھر آتا ہے حالانکہ تاریخ میں کم نہ تھیں ایسی عورتیں جنہوں نے خفیہ معلومات منتقل کرکے جنگوں کا رخ موڑ لیا ہے اور ممالک کے مقدرات کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ عورتوں کا جاسوسی کے لئے استعمال دو اہم دلیلوں پر استوار ہے:
۱۔ عورتیں بہت زیادہ حساسیت کا باعث نہیں بنتیں اور لوگ انہیں دیکھ کر بدظن نہیں ہوا کرتے۔ بطور مثال دوسری عالمیجنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں فرانسیسی مردوں کی تلاشی کا امکان عورتوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ اسی بنا پر اس دور میں خاتون جاسوساؤں کی تعداد میں بہت نمایاں اضافہ ہوا۔
۲۔ خواتین اپنی ظاہری جاذبیت اور دلفریبی کی بنا پر مردوں کو بہ آسانی دھوکہ دے سکتی ہے اور انہیں خفیہ معلومات فاش کرنے پر آمادہ کرسکتی ہیں۔
جاسوس عورتیں دو قسم کی ہیں: معمولی جاسوسائیں اور وہ جاسوسائیں جنہیں چڑیوں کا لقب دیا جاتا ہے۔
جاسوس عورتیں ـ جنہیں “ابابیلوںswallows” کے نام سے استعمال کیا جاتا ہے ـ ضعیف نفس اور شہوت پرست جنسی حربے بروئے کار لاکر اپنے متعلقہ جاسوسی اداروں کے منصوبے پر عمل کرتی تھیں۔
گولڈا مائیر
گولڈا مائیر ((Golda Meir جو ماضی میں یہودی ریاست کی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم رہی ہے، کو اسرائیلی ابابیلوں کی بڑی اماں کہا جاتا ہے۔
مائیرانہی ابابلیوں میں سے ایک تھی جو روسی سیاح کے طور پر اردن میں داخل ہوئی اور اردن کے فوجی حکام اور اعلی افسروں کی رہائشگاہوں کے قریب قیام پذیر ہوئی؛ کچھ عرصہ بعد اور بہت زیادہ آمد و رفت کے بعد،انافسروں کے ساتھ دوستی کے رشتے میں منسلک ہوئی اورانکی خصوصی محافل میں داخل ہوئی۔
گولڈا مائیر نے جسم فروشی کے حربے کے ذریعے یہودی ریاست پر اردن کے حملے کے منصوبے سمیت بہت اہم راز حاصل کئے۔ وہ اسی حربے کے ذریعے اردن کی کچھ فوجی تنصیبات تک میں بھی داخل ہوئی اور وہاں کی نہایت اہم معلومات حاصل کرلیں۔
زیپی لیونی
گولڈا مائیر کے بعد یہودی ریاست کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) بھی ایک “ابابیل” تھی۔ لیونی ۱۹۸۰ کے عشرے میں یورپ میں موساد کی جاسوسہ تھی اور اس کا کوڈ نیم “اسپارو – (Sparrow چڑیا)” تھا۔ اس نے بھی جنسی تعلقات برقرار کرکے موساد کی ضرورت کی معلومات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نشانہ یورپی سیاستدان تھے۔ اس کو موساد بیوٹی (Mossad beauty) کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔
موساد نے مردخائے وانونو کی گرفتاری کے لئے بھی اسی روش سے فائدہ اٹھایا:
موساد نے اپنی جاسوسی کاروائیوں کی ایک مشہورترین کاروائی ـ جس میں اس نے عورتوں کا آلاتی استعمال (Instrumental use) کیا ـ مشہور ایٹمیسائنسدان مردخائے وانونو (Mordechai Vanunu جو John Crossman کے نام سے بھی مشہور ہے) کی گرفتاری کے لئے ہونے والی کاروائی تھی۔ اس شخص نے یہودی ریاست کی عسکری ایٹمیسرگرمیوں سے متعلق سرگرمیوں کو برطانیہ جاکر فاش کرتے ہوئے شائع کردیا تھا۔ وانونو موساد کے نشانے پر تھا۔ وہ اسے یورپ سے اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین منتقل کرنا چاہتی تھی۔ موساد کے گماشتوں نے اس کو بھیانہی ابابیلوں کے ذریعے پھنسا کر گرفتار کیا۔
چیریل بنتوف (Cheryl Bentov) جو چیریل ہنین (Cheryl Hanin) کے نام سے مشہور تھی نے کینڈییا سینڈی (Cindy) کوڈ نیم کے تحت وانونو کے قریب پہنچی اور اس کے اس جال میں پھنسایا جو موساد نے اس کے لئے پھیلایا ہوا تھا، چنانچہ اسے بےہوش اور اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین پہنچایا گیا تا کہ یہاں اس کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔
اور ہاں یہ حربہ یہودیوں کے درمیان بہت پرانا ہے۔
پہلی عالمیجنگ میں یہودی جاسوسوں کا ایک سیل نیلی (Nili) کے نام سے برطانیہ کی خدمت میں مصروف تھا اور انہیں بظاہر وعدہ دیا گیا تھا کہانکیانخدمات کے بدلے میں جنگ کے بعد انہیں ایک یہودی ریاست بطور تحفہ دے جائے گی۔ سارا ارونسن (Sarah Aaronsohn)انہی جاسوسوں میں شامل تھی ـ جو ترک سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور موت کی سزا پانے سے پہلے اعتراف کیا کہ اس کی آخری آرزو یہودی ریاست کا قیام ہے ـ جس کو یہودی اپنی ہیروئن ابابیل کا نام دیتے ہیں۔
یہودیت کے دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) نے تو فتوی دے دیا اور دعوی کیا کہ یہ یہودی دین کا حکم ہے کہ اسرائیل کے امن کے لئے بہت اہم اور حیاتی معلومات کے حصول کے لئے عورتوں کو دہشت گردوں اور دشمنوں کے ساتھ “ہم خوابگی” تک کی اجازت ہے اور مغربی اخباروں نے بھی لکھا کہ: “Rabbi Ari Shvat declares sleeping with the enemy kosher” یعنی دشمن کے ساتھ ہم خوابگی حلال ہے!
اس رپورٹ کے مطابق، شوات نے اعلان کیا ہے خاتون ایجنٹوں کے لئے دہشت گردوں (یعنی فلسطین کی آزادی کے لڑنے والے مجاہدین اور دیگر جنگجؤوں نیز مخالفین) کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرنا جائز ہے تاکہ یہ رابطہانکی گرفتار پر منتج ہوجائے۔ اس یہودی رابی کی تحقیقی کاوش بعنوان “غیر قانونی رابطہ قومیسلامتی کے سلسلے میں” بیت المقدس کے قریب یہودی آبادکاروں کی بستی “گوش عتصیون (Gush Etzion)” سے شائع ہوئی ہے۔
ایک یہودی جاسوسہ یائیل (شایدYeil) کا کہنا ہے کہ: “زنانہ ادائیں جاسوسی کے مشن میں بہترین کردار ادا کرتی ہیں”۔
اس کا کہنا ہے: “عورت بعض اوقات جاسوسی مشنز میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھاتی ہے؛ جو مرد ممنوعہ علاقوں میں داخل ہونا چاہے تو اسے کامیابی کے لئے بہت کم مواقع میسر آتے ہیں؛ جبکہ ایک جاذب نظر ہنستی مسکراتی عورت کے لئے کامیابی کے مواقع بہت زیادہ ہیں”۔
موساد کی اعلی خاتون آپریشنل کمانڈر “اِفرات Efrat” کہتی ہے: “ہم اپنی نسوانیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ کامیابی کے لئے ہر کام جائز ہے”۔
واضح رہے کہ یہودی ادارے موساد کے دنیا بھر کے جاسوسی ادارے بھی اس روش کو بروئے کار لاتے ہیں۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:
مقدمہ
حالیہ برسوں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، ہندوستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کے اعلی درجے کے دفاعی سسٹم اور فوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ ہندوستانانممالک سے رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آگے ہیں اور چونکہ اسرائیل بھی ایک ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے اس لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اور پھر ہندوستان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل امریکہ کے نزدیک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا درحقیقت امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب سے اسرائیل بھی ایشیائی ممالک مخصوصا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کو اپنے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وزن دار ملک سمجھتا ہے اس لیے کہ پاکستان تنہا اسلامیملک ہے جو ایٹمیطاقت کا مالک ہے اور اس پر دباؤ رکھنے کے لیے اسرائیل کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا گویا اس کی مجبوری بھی ہے اور پھر پاکستان اور مسلمانوں کو دھشتگرد قرار دے کر اسرائیل آسانی سے ہندوستان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان کی ہندوستان کے بارے میں گفتگو آپ کو یاد ہو گی جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’میرے خیال میں ہندوستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں سے ہم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی بخوبی رہنمائی کر سکتے ہیں‘‘۔ بعض اسرائیلی محققین جیسے ’آبراہام سیگال‘ اور ’ہیری ایسریگ‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ہندوستان اسرائیل کے نزدیک ایک عظیم اخروٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسرائیل نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اب اسے صرف توڑنا باقی ہے‘‘۔ (ابوالحسنی، ۱۳۷۷؛ ۴۴۰)
بھارت اور اسرائیل تعلقات پر تاریخی نظر
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ایک طرف سے ہندوستان کے مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت کے خواہاں تھے اور دوسری طرف سے عرب ممالک بھی ناوابستہ تحریک کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کے قریب نہ جائے۔ لیکن ۱۹۶۲ میں بھارت چین جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی دفاعی قوت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی فوجی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۹۲ تک سیاسی روابط محدود اور خفیہ رہے۔ آخر کار ۱۹۹۲ میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہندوستان نے اپنی نئی اسٹریٹجک پالیسیوں کے تحتانتعلقات کو ایک نئی جہت دی اور صہیونی ریاست کے ساتھ سیاسی روابطہ کو وسیع اور علنی کر دیا۔ (ملکی، ۱۳۸۹؛ ۴۷)
۱۹۹۲ میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتے ہی غیر معمولی حجم کے دوطرفہ تجارتی اور سکیورٹی معاہدے شروع ہو گئے اور حالیہ دنوں میں یہ روابط سکیورٹی تعاون، سیٹلائٹ سسٹم، پیشرفتہ میزائل، ایٹمیسرگرمیوں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمیکے معاہدوں کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر چہ ہندوستان اور اسرائیل کے سامنے پائے جانے والے خطرات ایک جیسے نہیں ہیں اورانکا کوئی مشترکہ دشمن نہیں ہے اس کے باوجود دونوں ملک اپنے دفاعی سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے نزدیک اسرائیل جدید دفاعی سسٹم کو اپڈیت کرنے کے لیے ایک قابل بھروسہ ملک ہے اور اسرائیل کے لیے بھی ایشیا میں تزویری اعتبار سے بھارت ایک مستحکم اتحادی شمار ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو نسل پرستی کے زور پکڑ جانے اور بھارتیا جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت و اسرائیل کے درمیان روابط ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ مثال کے طور پر ۱۹۹۱، ۹۲ میں فوجی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے تقریبا دو ملکوں کے درمیان لگ بھگ پچاس ملاقاتیں اور معاہدے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی معیشتی مشکلات اور اسرائیلی ساخت کے ہتھیاروں کی نامرغوب کیفیت کے باوجود دونوں ملکوں میں بعض فوجی ساز و سامان جیسے ہلکے طیارے، ارجن ٹینک (مرکاوا) پریٹوی میزائل(جریکو ۱)، (جریکو ۲) نیز مشترکہ فوجی تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا رد و بدل کیا گیا۔ (کلانتری، ۱۳۸۸؛ ۹)
چنانچہ اگر ہندوستان اور اسرائیل کے گہرے تعلقات اور اس کے ایران و ہند تاریخی روابط پر پڑنے والے اثرات کو مزید گہرائی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو درج ذیل تین بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ضروری ہوں گے:
۱؛ کیا حقیقت میں اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات تزویری ہیں؟
۲؛ اس حساسیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو ایران اور عرب ممالک تل ابیب و نئی دہلی کے روابط کی نسبت رکھتے ہیں ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری روابط بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں؟
۳؛ کیا ہندوستان کا اسرائیل سے اسٹریٹجک روابط بڑھانے کا مقصد امریکہ سے نزدیک ہونا ہے؟
مذکورہ سوالات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان علاقے میں خصوصا چین کے مقابلے میں بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اسرائیل اس کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے اعتبار سے بہترین آپشن ہے۔
جاری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر استعمار کی نظر اچانک نہیں پڑی بلکہ قلب مملکت اسلامیہونے کی وجہ سے سینکڑوں سال قبل سے استعمار اپنی پیہم صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کیلئے طرح طرح کی سازش اور ترکیبیں بنا رہا تھا ، کبھی منہ کی کھائی تو کبھی دو چار حربے کامیاب ہوئے ، بیسویں صدی کے آغاز سے چند یہودی ’’ وطن یہود ‘‘کی اپنی دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سامنے آئے ، حالات نے بھی ساتھ دیا برطانیہ نے دست دوستی بڑھایا،’’ اسلام دشمنی‘‘ کی مشترک فکر کے ساتھ یہودی و عیسائی ہر طرح کے مکر و فریب سے آراستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ فلسطین کو غصب کرنے اور تحریک اسرائیل کو آگے بڑھانے میں درج ذیل افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے:
ہربرٹ ( Herbert)
یہ شخص پکا یہودی تھا ، برطانیہ نے مقبوضہ فلسطین پراپنی سپاہ کا افسر اعلیٰ ’’Commissioner‘‘بنا کر بھیجا تھا ۔
یہی وہ شخص ہے جس نے برطانیہ پردباؤ ڈالا تھا کہ اس کی (برطانیہ) نگرانی میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کی جائے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود وباش دی جائے ۔
اسی نے کہا تھا کہ یہودی مملکت کے وجود میں آجانے کے بعدمصر و نہر سوئز کے قریب برطانیہ کے مفاد کی حفاظت ہو سکے گی ۔
اسی نے اُس خفیہ مسودے کو آشکار کیا تھا جسے وزیر خارجۂ برطانیہ بالفور (Balfour)نے تہیہ کیا تھا جس میں فلسطین میں یہودیوں کے بسائے جانے کا منصوبہ طے پایا تھا۔
جنرل ایلن بی
آزادی خواہ عربوں کی حمایت میں امریکہ ، انگلینڈ ، اٹلی اور فرانس نے اپنی اپنی جو فوج بھیجی تھی جنرل ایلن بی اس کا سربراہ تھا اس نے جنرل ایلن بی (Allenby نے اپنی حکمت عملی سے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کیا ۔
۱۷؍دسمبر ۱۹۱۷ ء کو یہ شخص فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہوا اور فخریہ کہا ’’میں آخری صلیبی ہوں ‘‘ اس جملہ کا مفہوم یہ تھا کہ بیت المقدس پر قبضہ کیلئے یورپی مسیحیوں نے ۱۰۹۶ ء میں صلیبی جنگوں کے سلسلے کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام اب ہواہے ۔(۱) اس جنرل نے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کے بعدبرطانیہ ایک خط بھیجا جس میں انقلابی عربوں کی خدمات کو سراہا ہے ، خط کا مضمون اس طرح تھا :
۲۸؍جنوری ۱۹۱۸ ء :آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ عثمانی حکومت سے جو جنگ لڑی جا رہی تھی وہ ہم نے جیت لی اس کامیابی کا سہرا عربوں پر ہے انہوں نے جی جان سے ہماری مدد کی ۔
جنرل ایلن بی کے اس اعتراف حمایت کے بعد بھی استعمار نے آزادی خواہ عربوں کو آزادی کے بجائے اس وقت سے یہودیوں کی اسارت واذیت کی آماجگاہ بنا دیا ۔
فلسطین پر فتح کے بعد جنرل ایلن بی نے اعلان کیا کہ فلسطین فوج کے کنٹرول میں ہے اس کا نظم و نسق آزادی خواہ عربوں کے بجائے فوج انگلستان انجام دیا کرے گی ۔
ممکن تھا کہ اس اعلان سے عربوں میں بے چینی و بے اطمینانی پیدا ہوں لہٰذا فوراً انگلینڈ و فرانس نے عوام کے ذہنوں کے شک و شبہ کو بر طرف کرنے کیلئے سربراہ فوج کی طرف سے یہ بیانیہ منتشرکیا ۔
انگلستان و فرانس کی مشرق وسطیٰ میں دخل اندازی صرف اس لئے تھی کہ عرب کی مجبور وبیکس قوم کو ترکوں کی غلامیسے رہا کرائیں تاکہ یہ آزادانہ اپنی حکومت تشکیل دے سکیں ۔ انگلستان و فرانس جیسی عادل حکومتانکی مدد سے قطعاً دریغ نہیں کرے گی ۔ آنے والے دنوں میں بھی انگلستان و فرانس کی عادل حکومت اسی طرح کی آزادی دلاتی رہے گی ۔ اس اعلان نے عربوں کے ذہنوں سے بچے کھچے شبہ کو بھی نکال دیا ۔
ڈاکٹر وائز مین
مانچسٹر یونیورسٹی میں کیمسٹ Chemist کا پروفیسر تھا عقیدے کے اعتبار سے کٹر یہودی تھا، اپنی علمیصلاحیت کی وجہ سے انگلینڈ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔
یہودی حکومت کے قیام کے لئے امریکہ فرانس اور انگلینڈ کے سربراہوں سے بار بار ملاقاتیں کیں ، اور یہودی مملکت کے لئے راستے ہموار کئے ۔
پہلی جنگ عظیم میں اس شخص نے انگریزوں سے کہا تھا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرنے کے بعد سر زمین فلسطین پر یہودیوں کا قومیوطن قائم کردیں تو اس جنگ میں یہودیوں کے سارے خزانےانکے قدموں تلے قربان کر دئے جائیں گے ۔آخر کار ۱۹۱۷ ء میں انگریزوں سے وعدہ لینے میں کامیاب ہوگیا ، لہٰذا انگریزوں نے وعدہ کرلیا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرلیتے ہیں تو وہ فلسطین کو ایک آزاد یہودی وطن بنا دیں گے ،لہٰذا جب کامیابی مل گئی تو انگریزوں نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے وہ جال بچھایا جس میں آج تک فلسطین الجھا ہوا ہے اسرائیل کی غصبی حکومت کا یہ شخص پہلا صدر تھا ۔
عربوں نے جس وقت انگلستان کی در پردہ یہود نوازی کو بھانپا توانمیں یہودیوں کے خلاف بغاوت و غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، ہر عربی ملک نے فلسطین بچاؤ تحریک میں حصہ لیا اور یہودیوں کا بائکاٹ کیا ، اس بائکاٹ نے ساٹھ فیصد یہودیوں کو بے روزگار بنا دیا ، اس موقع پر ڈاکٹر وائز مین نے یہودیوں کی پیغام دیا کہ تم لوگ اس وقت تاریخ کے نہایت سخت ترین دور سے گذر رہے ہو ، صبر وضبط کا مظاہرہ کرو ۔اس اعلان کے فوراً بعد شر پسند یہودیوں نے برطانیہ سے اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے اسلحوں کا مطالبہ کیا ، بوڑھی برطانیہ نے پانچ ہزار قبضے توپ وتفنگ اور بم فلسطین کے غاصب یہودیوں کو روانہ کیا جسے پانے کے بعد انہوں نے گھنی آبادیوں ، سبزی منڈیوں میں عربوں پر حملے کئے ، انڈوں کی ٹرے اور سبزیوں کی ٹوکروں میں بم رکھے جس کے پھٹنےکے بعد پہلی بار چوہتر (۷۴) فلسطینی جاں بحق اور ایک سو تیس (۱۳۰)زخمیہوئے ،اس دن سے آج تک بے گناہ عورتوں بچوں بیماروں ، مزدوروں اور طالب علموں کویہود خاک و خون میں آلودہ کر رہے ہیں ۔
بالفور (Balfour)
یہودی ملک کے قیام کیلئے سب سے پہلے اس شخص نے یوگنڈاکا انتخاب کیا تھا ، لیکن یہودیوں نے اس تجویز کو رد کردیا ۔
بالفور پکا یہودی تھا اور یہودی مملکت کو فلسطین میں فوری قائم کرنےکیلئے تحریری مسودہ بھی تیار کیا تھا جس کی عبارت کا مفہوم تھا :جیسا کہ دنیا کی چار بڑی حکومتیں اپنے کو یہودیوں کا طرفدار بتاتی ہیں ،انپر واضح ہونا چاہئے کہ ہمیں فلسطینیوں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے ہم خواہ حق پر ہوں یا باطل پر، ہمارے مفاد مقدم رکھنا پڑیں گےانبڑی حکومتوں کو ہماری آرزؤں ، تمناؤں کا خیال رکھنا چاہئے، ہم سات لاکھ فلسطین کےباشندوں پر ہر حال میں مقدم ہیں۔
ڈاکٹر ہرٹزل (Dr Theodore Hertzel)
ایک عام سا مقالہ نویس تھا رفتہ رفتہ اسی مقالہ نویسی سے لوگوں میں پہچانا جانے لگا ، کچھ دنوں بعد پیرس کے اخبار کا خبر نگار بنایا گیا لیکن اس کو شہرت تمام اس وقت حاصل ہوئی جب فرانس کے اسلحہ خانے کے دریفوس نامییہودی افسر پر الزام تھا کہ اس نے فرانس کے خفیہ اسرار جاپان کو منتقل کر دئے ہیں ، اس خبر کے عام ہوتے ہی فرانسیسیوں میں یہودیوں کے خلاف غم و غصہ بھڑک اٹھا اور انہیں غدار و خائن کے لفظ سے پکارا جانے لگا ، جہاں کہیں یہودی ہوتےانکو فرانسیسی حقارت ، نفرت ، اور ذلت کی نظر سے دیکھتے ۔
ملکی پیمانے پر اس حقارت کے باوجود یہودی خاموش نہیں بیٹھے بلکہ دس سال تک اس کوشش میں رہے کہ کسی صورت سے مقدمے کی دوبارہ اپیل کا موقع مل جائے ، آخر کار اس سلسلے میں یہودیوں کو کامیابی ملی اور اسناد جاسوسی کو پھر سے کھنگالا گیا اور آخر کار مجرم کو بے خطا ثابت کرا دیا ۔
اس پورے واقعہ کا پیرو یہی اخباری نمائندہ ڈاکٹر ہرٹزل تھا اس نے اپنے ایک یہودی بھائی کو نہیں بچایا تھا بلکہ یہودی برادری کو جس حقارت و نفرت سےفرانس میں دیکھا جا رہا تھا اس سے آزاد کرایا تھا ۔اس مقدمہ کی کامیابی نے ہرٹزل کو یہودیوں کا قائد و رہبر بنا دیا ۔
اسی ہرٹزل نے ترکی کے خلیفہ سلطان عبد الحمید سے کہا تھا کہ اگر وہ سر زمین فلسطین پر یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دے دیں تو یہودی ترکی کے تمام قرضوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہیں ، لیکن سلطان نے یہ کہتے ہوئے اس کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا کہ جس سر زمین کو ہمارے آباء و اجداد نے خون دیکر حاصل کیا ہے اس کو چنددرہموں کے بدلہ نہیں بیچا جا سکتا ہے۔ہرٹزل نے اپنی کتاب ’’مملکت یہود‘‘ میں یہودیوں کو پیغام دیا :
یہودیو! تم لوگ دنیا میں پراگندہ ہو اسی لئےانممالک کی اذیت و ذلت برداشت کررہے ہو اگر تم میں سے کوئی اپنے ملک کی اذیتوں کو برداشت نہیں کر سکتا ہے تو اسے کسی ایسی جگہ ہجرت کرکے پہنچناچاہئے جہاں وہ مستقل اپنا ایک ملک بنا سکے ۔اس شخص نے یہودیوں کے درمیان باہمیرابطہ مضبوط کر نے کےلئے ایک تنظیم بنائی ،تاکہ یہودیوں کی اقتصادی ،سیاسی ،سماجی اطلاع رکھی جا سکے ۔
ہرٹزل نے اپنی دوڑ دھوپ سے یہودی مملکت کے قیام کی راہیں ہموار اور مشکلیں برطرف کرنے کیلئے سالانہ کانفرنس کا انتظام بھی کیا تھا جس میں دنیا بھر کے اعلیٰ یہودی شریک ہوتے اور تسخیر کائنات کے منصوبے بناتے ۔
کانفرنس کی جو بنیاد ہرٹزل نے رکھی تھی آج تک یہودیوں میں جاری ہے۔
مآخذ: فلسطین خونبار تعارف اور جائزہ
یہودیوں کے ذریعے بہائیوں کی ترقی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: استعماری اور سامراجی طاقتیں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی تبدیلیوں کے بعد براہ راست دنیا پر اثرانداز ہونے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ اس وجہ سے بوڑھے سامراج یعنی برطانیہ کو مسلمانوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اورانکے قومیاور مذہبی سرمائے کو لوٹنے کے لیے سوائے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور اختلاف ڈالنے کے کوئی اور چارہ نہ سوجا۔ لہذا، شیعوں کے درمیان بہائیت اور اہل سنت کے درمیان وہابیت کو جنم دیا گیا۔
اس درمیان یہودی جو ہمیشہ سامراجیت کے شانہ بشانہ حرکت کرتے رہے ہیں ایک مرتبہ پھر بوڑھے سامراج کی مدد کو پہنچے اور انہوں نے مسلمانوں میںانفرقوں کو ترقی دینے کے لیے اپنی تمام تر قوت کا استعمال کیا۔ فرقہ بابیت جو بہائیت کا پیش خیمہ تھا جدید المسلمان یہودیوں کے ذریعے ایران کے شہر رشت سے شروع ہوا اور اس کے بانی ’مرزا ابراہیم جدید‘ تھے۔
خراسان میں سب سے پہلے جو لوگ فرقہ بابیت کے ساتھ ملحق ہوئے وہ یہودی تھے جو تازہ مسلمان ہوئے تھےانمیں ملا عبد الخالق یزدی معروف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شخص یہودی علماء میں سے ایک تھا شیخ احمد احسائی کے دور میں مسلمان ہو کر شیخ کے مریدوں میں شامل ہوا تھا۔ شیعوں میں اس نے اپنا اتنا اثر و رسوخ پیدا کر لیا کہ مشہد میں حرم امام رضا علیہ السلام کے ایک صحن میں نماز جماعت کا پیش امام بن گیا اور وہاں اپنی تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعض مورخین کے مطابق وہ مشہد کے ممتاز علماء میں شمار ہونے لگا۔
اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ۱۸۳۱ء میں مشہد کے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲ ہزار تھی جبکہ کچھ ہی عرصہ بعد یعنی ۱۸۳۹ میں یہ تعداد بڑھ کر پانچ ہزار ہو گئی اسی دوران یہودی کمپنی ’ساسونی‘ کے قیام کے بعد ’علی محمد باب‘ کی دعوت پر مشہد کے تمام یہودی ایک ساتھ مسلمان ہو گئے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس جماعت کے مسلمان ہونے کی خبر یہودی دائرۃ المعارف میں ’’خفیہ یہودیوں‘‘ کے باب میں بیان کی گئی ہے نہ کہ مرتد یہودیوں کے حصے میں۔ تازہ مسلمان ہوئے یہودیوں کی یہ جماعت بعد میں دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک گروہ بہائیوں کا اور دوسرا صوفیوں کا۔ اور دونوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ اسلام کی جڑوں کو اپنے اپنے حساب سے کاٹیں۔ یہودی محقق ’والٹر فیشل‘ کے بقول یہ جدید المسلمان یہودی در پردہ دین یہود پر باقی تھے۔
اسماعیل رائین نے اپنی کتاب ’بہائیت میں تقسیم‘ میں اس بارے میں لکھا ہے: ’ایران کے اکثر بہائی یا یہودی تھے یا زرتشتی، اس فرقہ میں مسلمانوں کی تعداد اقلیت میں تھی‘۔ البتہ رائین سے پہلے بہائیت کے سابق مبلغ ’’آیتی‘‘ نے اس حقیقت کا پردہ چاک کیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب کشف الحیل میں یہوں لکھا: ’’یہ مسلمانوں کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ بہائی جماعت اہل علم و قلم سے خالی ہو چکی ہے اور اس کی لگام ’حکیم رحیم‘ اور ’اسحاق یہودی‘ جیسوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔‘’
لیکن اس جماعت کے بہائی ہونے کی وجوہات کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں اسماعیل رائین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’ہم جانتے ہیں کہ پیسے سے محبت اور سرمایے میں اضافہ کا شوق یہودیوں کی ذات میں رچا بسا ہوا ہے۔ مسلمان ممالک کے یہودی کہ جن میں کی اکثریت مسلمانوں کی دشمن ہے اور جا بجا مسلمانوں کی نسبت اپنی دشمنی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، بہت جلد بہائی فرقے میں شامل ہو گئے اور اس طریقے سے انہوں نے مالی مراعات سے فائدہ اٹھایا اور خود کو عکا کے بہائی مرکز سے جوڑ لیا‘۔
بطور خلاصہ مالدار اور معروف یہودی صرف مشہد، گیلان اور مازندران میں ہی موجود نہیں تھے بلکہ ایران کے دیگر شہر جیسے کاشان، ہمدان اور یزد وغیرہ میں بھی کافی تعداد میں تھے جو اس فرقہ ضالہ کے ساتھ ملحق ہو گئے تھے۔
لہذا فرقہ بہائیت مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے بلکہ اس کے بانی اور اس کو پروان چڑھانے والے یہودی اور سامراجی طاقتیں ہیں۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے شعبے “فلسطین اور مزاحمت” کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل میں موجودہ دراڑوں کے جائزے اور اس مسئلے میں غور و فکر کے بموجب اسرائیل اور فلسطین کے شعبے کے محققین اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور جامع تحقیقات کے ذریعےاندراڑوں کو آشکار کر رہے ہیں اور نظریات کو منصوبہ سازی کے ہمراہ میدان میں عمل میں لا رہے ہیں۔ ڈاکٹر علی رضا سلطان شاہی طویل عرصے سے صہیونیت اور اسرائیل کے سلسلے میں مطالعے اور تحقیق میں مصروف ہیں۔
ذیل کا متن ڈاکٹر سلطان شاہی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نمائندے کا مکالمہ ہے جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: اسرائیل نامیریاست کی دراڑیں آج کے ایام میں ماضی سے کہیں زیادہ قابل مشاہدہ ہیں؛ اس ریاست میں موجود اہم ترین دراڑوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سلطان شاہی: میں نے صہیونی ریاست کے وحود کے اندر کی دراڑوں میں زیادہ تر کام اس کی آبادی سے متعلق کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آبادی کا مسئلہ اس ریاست کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ دنیا کے ۱۰۲ ممالک سے اٹھاون لاکھ یہودی مقبوضہ فلسطین میں آن بسے ہیں؛ جب ہم کہتے ہیں کہ ۱۰۲ ممالک سے، یعنی ۱۰۲ مختلف ثقافتی، کرداری، سیاسی، سماجی، مذہبی، قومیاور زبانی خصوصیات، جنہیں ایک ریاست کی عملداری میں اکٹھا کیا گیا ہے۔
یہاں ہجرت کرنے والے اکثر یہودی عبرانی زبان نہیں بول سکتے ہیں بلکہ صرف کچھ لوگ عبرانی میں بات چیت کرسکتے ہیں۔ بطور مثال مقبوضہ فلسطین میں یہودی ریاست کے تحت ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ ہے لیکن اس قدر دوسرے یہودیوں سے بیگانہ ہیں کہ ایرانی یہودیوں کی اپنی کتابیں اور اپنے رسالے اور اخبارات ہیں اور اتنا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود جبرا بنائی گئی تہذیب میں گھل مل نہیں سکے ہیں۔
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ریاست میں معمول کے معنوں میں کوئی خاص تہذیب موجود نہیں ہے بلکہ سب یورپی روش اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ زیادہ تر یہودی یورپ سے یہاں آ گئے ہیں۔ مشہد کے یہودی صہیونی ریاست میں حتی دوسرے ایرانی یہودیوں سے بھی بیگانے ہیں، چہ جائےکہ وہ اسرائیلی بن جائیں۔ اس وقت نیویارک میں مقیم مشہد کے یہودیوں کی اپنی الگ تنظیم ہے۔
یہ دراڑیں جس قدر کہ زبانی، قومی، ثقافتی اور اعتقادی لحاظ سے زیادہ ہوں، صہیونی معاشرے کی سطح پر اتنی ہی دراڑیں معرض وجود میں آئیں گی۔ اسی بنا پر صہیونی اپنے منصوبوں میں مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ کیونکہ المختصر: “یہاں آبادی کا مسئلہ ہے”؛ جب سے یہودی ریاست بنی ہے، اب تک اسقاط حمل کے ۲۰ لاکھ واقعات سامنے آئے ہیں۔
یہودی ریاست کی آبادی میں اضافے کی شرح بمشکل ۱٪ ہے؛ الٹی ہجرت [اور یہودیوں کی اپنے آبائی ممالک میں واپسی] میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہودی نوجوانوں میں امریکی اور یورپی طرز زندگی اپنانے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے یعنی یہ کہ یہودی ریاست میں رہنے کے لئےانکے ہاں کوئی محرک نہیں ہے۔
یہاں کے مردوں اور عورتوں کو فوج میں جبری خدمت کرنا پڑتی ہے، اس کے باوجودانکے مردوں اور عورتوں میں جنگ کی طرف رغبت بالکل نہیں پائی جاتی اور آسائش طلبی کا شوقانکے اوپر مکمل طور پر غالب آچکا ہے۔ یہودی ریاست کی افواج میں نافرمانی کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔
ادھر آبادی میں اضافے کا رجحان کم ہونے کے ساتھ ساتھ، فلسطینیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ۴ فیصد تک پہنچ چکی ہے؛ وہ قدس کی آزادی کی آرزو سے لیس ہیں، یہودیوں کے خلاف ہیں اور اس وقت [ملینوں فلسطینیوں کو ملک سے نکال باہر کئے جانے کے باوجود] فلسطینیوں کی آبادی تقریبا یہودی آبادی کے برابر ہے۔
خیبر: کیا مذکورہ فلسطینی آبادی میں آپ نے بیرون ملک مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کو شمار نہیں کیا؟
– نہیں! اگر پناہ گزینوں کو بھی فلسطینیوں کی اندرونی آبادی میں شامل کریں توانکی آبادی یہودیوں کے دو گنا ہوجائے گی؛ اور یہی یہودی ریاست کے لئے بہت بڑی آفت ہے جس کا وہ اعلانیہ اظہار نہیں کرتے لیکن بہت سے ادارے ہیں جو اس مسئلے کے حل کے درپے ہیں؛ اور وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آبادی میں توازن بحال نہ کرسکیں تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیبر: آبادی کی بنیاد پر اہم دراڑ کے علاوہ کیا فلسطین پر قابض یہودی ریاست میں مزید دراڑیں بھی ہیں؟
– کسی وقت جب یہاں اشکنازی یہودی تھے توانمیں سے ہر کسی کا اپنا ایک رتبہ ہوتا تھا اور بہتر اقتصادی اور معاشرتی پوزیشن کے ساتھ حساس اور کلیدی مناصب تک رسائی ممکن تھی لیکن ۱۹۷۰ کے عشرے سے ۱۹۸۰ کے عشرے تک ایتھوپیا کے یہودی بھی ہجرت کرکے مقبوضہ فلسطین آگئے اور یوں یہاں بڑی تعداد میں سیاہ فام باشندے بھی آباد ہوئے جس کے نتیجے میں صہیونی ـ یہودی ریاست کے مسائل میں نسلی دراڑ بھی شامل ہوگئی۔
ابتداء میں تو افریقی کوئی خاص توقع نہیں رکھتے تھے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ فلسطین میں بہت سے طبقے ہیں جو اپنے حقوق کے لئے ہڑتالیں کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور سڑکوں کو بند کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آئے اور دوسرے یہودیوں کے برابر کے شہری حقوق کا مطالبہ کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اشکنازی، کالے اور سفارادی یہودیوں کے درمیان کشمکش اور تنازعے کی صورت حال حکمفرما ہے۔
علاوہ ازیں میزبان [مقبوضہ] ملک “عرب” اور “دروزی” نامیقوم کا ملک ہے جن کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے؛ اور پھر یہاں “عرب یہودی” بھی ہیں جو پوچھ رہے ہیں کہ انہیں فوج میں کیوں نہیں جانے دیا جاتا اور انہیں فوج کے فوائد سے مستفید کیوں نہیں ہونے دیا جاتا؟ اب آپ خود اسرائیل نامیجعلی ریاست کے اندر ایک نگاہ ڈالیں اور دیکھ لیں کہ یہودیوں کے درمیان کیا واقعات رونما ہو رہے ہیں اور غیر یہودی، یہودیوں کی نسبت کس طر عمل کررہے ہیں؟
بعض یہودی نوجوان کہتے ہیں کہ اگر یہاں کا حکمران نظام صہیونیت اور قومییہودی تحریک ہے تو پھر یہودی ریاست کے کنیسے میں ایک عرب اذان کیوں دیتا ہے؟ اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ اسی بنا پر دائیں بازو کی یہودی جماعتوں کا خیال ہے کہ اب وہ زمانہ گذر گیا ہے جب ہمارا اپنا آپ دنیا کو دکھانے کا دور گذر چکا ہے، اسی بنا پر انھوں نے کچھ اقدامات کا منصوبہ بنایا ہے کہ کنیسے کو ایسے افراد سے خالی کرایا جائے۔ “اپنا آپ لوگوں کو دکھانے کا زمانہ گذر چکا ہے” سے مراد یہ ہے کہ اب وہ وقت گذر گیا ہے کہ ہم دنیا کو بتاتے رہیں کہ اگر ایک غیر یہودی بھی آیا تو کوئی حرج نہیں ہے اور ہم اسے شہریت دے دیں۔
اس وقت فلسطینیوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف سے دروزیوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ۲۰ لاکھ عرب ۱۹۴۸ کی فلسطینی سرزمین میں سکونت پذیر ہیں، تو کیا یہودی انہیں دریابرد کریں گے؟ قتل کریں گے؟ نکال باہر کریں گے؟ اصولی طور پر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی ریاست کو مختلف قسم کی بند گلیوں کا سامنا ہے جنہوں نے اسے شکست و ریخت سے دوچار کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جیمز پیٹراس(James Petras) امریکہ کی بنگ ہمٹن (Binghamton) یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کے پروفیسر تھے۔ ۱۷ جنوری ۱۹۳۷ میں آپ پیدا ہوئے۔ آپ نے کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پیٹرس نے سیاسی موضوعات میں لاطینی امریکہ، مشرق وسطی، شاہیزم، گلوبلائزیشن اور بائیں سماجی تحریکوں پر خصوصی اور جامع مطالعہ کیا۔ انہوں نے ۶۳ عناوین پر مختلف کتابیں تالیف کیں اور ۲۹ زبانوں میںانکی کتابوں کا ترجمہ ہوا۔ علاوہ از ایںانکے ۶۵۰ علمیمقالے مختلف تخصصی جرائد(۱) میں منظر عام پر آئے ہیں جبکہ ۲ ہزار کے قریب غیر تخصصی جرائد(۲) میں چھپے ہیں۔ امریکہ کے معروف پبلیکیشن سینٹروں جیسے روٹلیج (routledge) رنڈم ہاؤس (Random House) اور میک میلن (macmillan) نے پیٹرس کی کتابوں کو شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔(۳)
پیٹراس کے بعض قلمیآثار درج ذیل ہیں:
The Arab Revolt and the Imperialist Counterattack
War Crimes in Gaza and the Zionist Fifth Column in America
Zionism, Militarism and the Decline of US Power
The Power of Israel in the United States
Rulers and Ruled in the US Empire
جیمز پیٹراس قائل ہیں کہ امریکی یہودی اس ملک کی خارجہ پالیسی پر بے حد اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’’امریکہ میں اسرائیل کی قدرت‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ کے یہودی اگرچہ ۲ فیصد آبادی کو تشکیل دیتے ہیں لیکن ۳۰ فیصد سے زیادہ سرمایہ دار گھرانے یہودیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔(۴) جیمز قائل ہیں کہ یہودی اپنے سرمایہ سے بخوبی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی یہودی امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹیوں کے ۳۵ سے ۶۰ فیصد اخراجات پورا کرتے ہیں۔
۲۰۰۸ میں دئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اعلان کیا: تمام امریکی صدور ’’یہودی طاقت‘‘ کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہودی عالمیاور انسانی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
حواشی
[۱]American Sociological Review,British Journal of Sociology,Social Research
[۲]New York Times, The Guardian, The Nation, Christian Science Monitor, Foreign Policy, New Left Review, Partisan Review, Canadian Dimension
[۳]http://petras.lahaine.org/?page_id=4
[۴]http://vista.ir/article/114532
[۵]http://dissidentvoice.org/2008/06/a-disenchanted-james-petras
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہ صوبہ ملک کا پائے تخت بھی ہے اب اس کے قدیم وبجدید نام کے دو حصے ہیں، قدیم بیت المقدس کے گرد ۱۵۲۴ ء میں دسویں عثمانی خلیفہ نے دیوار شہر تعمیر کرائی تھی اس قدیم حصہ میں ہی مسجد اقصیٰ اور دوسرے اہم تاریخی مقامات ہیں۔ یہیں پر ایک جگہ ہے کہ جسکے لئے عیسائی کہتے ہیں کہ وہاں زمانۂ قدیم میں وہ عدالت تھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی کا حکم سنایا گیا تھا اور یہیں سے وہ اپنے کاندھے پر صلیب لیکر اس مقام کی طرف بڑھے تھے جہاں انہیں سولی دینا طے کیا گیا تھا ، یہ بھی مشہور ہے کہ صلیب اتنی وزنی تھی کہ عدالت سے مقام قتل تک پہنچنے میں حضرت عیسیٰؑ بارہ جگہ تھک کر دم لینے کے لئے ٹہرے تھے۔ قرآن نے اس واقعہ کی تردید نہیں کی لیکن سولی پانے والے کو شبیہ عیسیٰ علیہ السلام قرار دیا ہے ۔
: غزہ فلسطین کا دوسرا صوبہ ہے یہاں حضرت ہاشم جد سرکار ختمیمرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر ہے اسی جگہ شہر کا بڑا ایئرپورٹ بھی ہے کوزہ گری میں یہ شہر بڑی شہرت رکھتا ہے، خود غزہ صوبے کا پائے تخت بھی ہے، اس کے زیر انتظام حسب ذیل شہر ہیں:
(۱) خان یونس:
جنوب فلسطین کا آخری شہر ہے، یہاں کے کچے خرمے اپنی لطافت و ذائقے میں بہت شہرت رکھتے ہیں ۔
(۲) مجدل:
ریشم سازی اور روئی کی نمایاں کاشت کی وجہ سے جانا جاتا ہے، ویران عسقلان شہر بھی اسی جگہ ہے ۔
(۳)بئر السبع :
زرعی علاقوں پر مشتمل ہے، اس کی مساحت ۱۲۵۷۶ کیلو میٹر مربع پر محیط ہے اس میں بہت ہی زرخیز حصے پائے جاتے ہیں اور پینے کے پانی کا ڈیم بھی بنایا گیا ہے، اگر کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ نصف مساحت فلسطین صرف اسی بئر السبع پر محیط ہے ۔
اللّد
اس صوبے کا مرکز شہر ’’یافا‘‘ ہے صنعت و تجارت والا شہر ہے، یہاں مختلف پھل، سنگترے، مالٹے کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس صوبے کے ہی زیر نگیں مشہور شہر تل ابیب ہے یہاں صرف یہودی ساکن ہیں، اور یہ شہر شدید جنگ کا سماں پیش کرتا رہتا ہے ۔
سامرہ
اس صوبے کا مرکز نابلس ہے، صابن سازی میں اسے خاصی شہرت ہے، شہر جنین، طولکرم، قلقیلیہ، اور عنبتا، اسی صوبے کے اندر واقع ہیں۔
اس صوبہ کے دو شہر پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔
الجلیل
ناصرہ اس صوبہ کا پائے تخت ہے، اسی شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رہائش تھی، یہاں کے دیرؔ بہت مشہور ہیں ۔
شہر عکا اسی صوبے کا تاریخی شہر ہے جس کے گرد مضبوط چاردیواری اور بڑے بڑے برج ہیں، مسجد’’ جامع الجزار‘‘بھی اسی جگہ ہے جس کی شہرت دور دور تک ہے ۔
اس وقت یہ شہر بہائیوں کامرکز ہے چونکہ قبر مرزا علی باب اسی جگہ ہے ۔
حیفا
اس صوبے کا پائے تخت خود اسی جگہ ہے ، بہت بڑی بندرگاہ ہے ،عراق کی تیل پائپ لائن یہیں پرہے جہاں پر صفائی ہوتی ہے، اسی جگہ سے تیل ساری دنیا میں بھیجا جاتا ہے ۔
تعداد صفحات : 3